لوک سبھا انتخابات: عوام کو ذات اور مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے بنیادی مدوں پر ووٹ ڈالنا چاہئے...سید خرم رضا

سیاسی رہنما اپنے انداز میں اپنی بات سمجھانے اور مخالفین کے الزامات کو مسترد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ عوام کے اوپر ہے کہ وہ اس کو کس طرح لیتے ہیں اور کس پارٹی کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کر تے ہیں

<div class="paragraphs"><p>لوک سبھا انتخابات 2024 / Getty Images</p></div>

لوک سبھا انتخابات 2024 / Getty Images

user

قومی آوازبیورو

وزیر اعظم نریندر مودی کا نیوز ایجنسی اے این آئی کو دیا گیا انٹرویو ہو، راہل گاندھی اور اکھلیش یادو کی مشترکہ پریس کانفرنس ہو، راجپوت سماج کا برسراقتدار جماعت کے خلاف غصہ ہو، جینت چودھری کا اجلاس میں شرکت نہ کرنا یا مدعو نہ کیا جانا ہو، راجستھان میں جاٹوں کی ناراضگی ہو، جنوبی ہندوستان میں روڈ شو ہو یا پرینکا گاندھی کا اتراکھنڈ میں سیاسی جلسوں سے خطاب کرنا  ہو یہ سب کچھ انتخابات کے دوران عوام کو دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ سیاسی رہنما اپنے اپنے انداز میں اپنی بات سمجھانے اور مخالفین کے الزامات کو مسترد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ عوام کے اوپر ہے کہ وہ اس کو کس طرح لیتے ہیں اور کس پارٹی کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کر تے ہیں۔

عوام کو بنیادی طور پر اپنی رائے کے اظہار سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ اس سے جڑے مدے کون سی سیاسی پارٹی اٹھا رہی ہے اور اس کے مدوں کو حل کرنے کے لئے سیاسی جماعت کس امیدوار کو میدان میں اتار رہی ہے۔  لوگوں کو صرف اس بات پر ووٹ  نہیں کرنا چاہئے کہ اس کے سماج کی ایک پارٹی بے عزتی کر رہی ہے یا کوئی مذہب کی بنیاد پر ووٹ ڈال دے بلکہ ان کو اس بات پر ووٹ کرنا چاہئے کہ ان کے بچوں کے لئے روزگار دلوانے میں کون سی پارٹی سنجیدہ ہے، کون سی سیاسی پارٹی عوام کو بڑھتی مہنگائی سے راحت دلوا سکتی ہے، اس کی اور ملک کی ترقی کو کون سی سیاسی پارٹی یقینی بنا سکتی ہے اور کس سیاسی پارٹی کے پاس عوام کو بدعنوانی سے نجات دلانے کے لئے پروگرام ہے۔


اگر عوام ملک اور خود کی ترقی چاہتے ہیں تو ان کو اپنی رائے کا اظہار ایسی پارٹی کے حق میں کرنا چاہئے جو اس تعلق سے سنجیدہ ہو  ۔ اگر اس دور میں بھی عوام مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر اپنا ووٹ ڈالتے ہیں تو پھر وہ اپنے اور اگلی نسل کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ  کر رہے ہیں۔ جذباتی ہو کر رائے دہندگان کو نہیں سوچنا چاہئے اور نہ ہی کسی سے نفرت کی بنیاد پر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہئے۔

مغربی اتر پردیش کی کچھ نشستوں   میں ہونے والے انتخابات میں یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ سماج کے کچھ طبقات ایک مخصوص پارٹی کو اس لئے ووٹ نہیں دے رہے کیونکہ ان کے طبقہ کی نمائندگی اس پارٹی نے کم کر دی  ہے اور ایک طبقہ اس لئے کسی امیدوار کے حق میں ووٹ دے رہا ہے کیونکہ وہ اس کی کھاپ کا ہے ۔اتر پردیش جس کو دہلی کے اقتدار کے لئے دروازہ کہا جاتا ہے  کیونکہ وہاں کی سب سے زیادہ اسی (80)نشستیں ہیں۔ ان اسی میں سے آٹھ نشستوں پر 19 اپریل یعنی پرسوں انتخابات ہونا ہے۔ ان آٹھ نشستوں پر موجودہ ارکان پارلیمنٹ کے خلاف کچھ تو ناراضگی طبقہ کی نمائندگی کم کرنے کی وجہ سے ہے اور کچھ کی ناراضگی اس لئے ہے کیونکہ ان کے بچوں کے مستقبل کے تعلق سے مرکزی حکومت کی پالیسیاں ان کے حق میں نہیں ہیں۔ ان علاقوں کے زیادہ تر نوجوان فوج میں جاتے تھے لیکن حکومت کی نئی اگنی ویر پالیسی کو لاگو کئے جانے کے بعد نوجوانوں کی فوج میں بھرتی کو چار سال تک کے لئے محدود کر دیا گیا ہے اور اس  پالیسی کی وجہ سے خود کو ٹھگا سا محسوس کر رہے ہیں۔ اگر عوام اپنے بچوں کے مستقبل کے تعلق سے اپنے ووٹ کا فیصلہ کرے تو وہ مثبت اشارہ ہے لیکن اگر ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر اپنے ووٹ کا فیصلہ کرے تو اس کو مثبت نہیں کہا جا سکتا۔

بہرحال نئی حکومت کی تشکیل کے لئے عوام کے ذریعہ رائے دینے کا عمل شروع ہونے جا رہا ہے اور عوام کو ملک اور اپنے حق میں رائے کا اظہار کرنا چاہئے نہ کہ مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کی ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔