یوپی: ’لو جہاد‘ معاملہ میں مغل بادشاہ اکبر اور ان کی بیوی جودھا بائی کی انٹری!

الٰہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ الگ مذاہب کے لوگوں میں شادی اور رشتوں کو بہتر طریقے سے نبھانے میں مغل بادشاہ اکبر اور ان کی ہندو بیوی جودھا بائی کی شادی سے بہتر کوئی دوسری مثال نہیں ہو سکتی ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ، اتر پردیش / تصویر آئی اے این ایس
الہ آباد ہائی کورٹ، اتر پردیش / تصویر آئی اے این ایس
user

تنویر

اتر پردیش میں ’لو جہاد‘ کے خلاف قانون بننے کے بعد بھلے ہی بڑی تعداد میں لو جہاد کو لے کر کیسز درج کیے گئے ہوں، لیکن بیشتر معاملے فرضی ہی ثابت ہوئے ہیں اور دو الگ الگ مذاہب سے تعلق رکھنے والے لڑکے اور لڑکیوں نے اپنی مرضی سے شادی کرنے کی بات کہی ہے۔ اس کے باوجود ’لو جہاد‘ کو لے کر ہنگامہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایٹہ کا ایک معاملہ بھی سامنے آیا جس میں شادی کے لیے دھوکے سے مذہب تبدیل کرائے جانے کا الزام لگایا گیا۔ اس تعلق سے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی بھی داخل کی گئی تھی جس پر فیصلہ سناتے ہوئے مغل بادشاہ اکبر اور ان کی بیوی جودھا بائی کی مثال لوگوں کے سامنے رکھی گئی۔

دراصل ایٹہ لو جہاد معاملہ پر الٰہ آباد ہائی کورٹ نے تلخ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ محض شادی کے لیے ڈر، دھوکہ، لالچ اور دباؤ میں کی گئی مذہب تبدیلی قطعاً درست نہیں۔ ایسے مذہب تبدیلی میں عبادت کا طریقہ تو بدل جاتا ہے، لیکن اس خاص مذہب کے تئیں کوئی عقیدت نہیں ہوتی۔ عدالت نے کہا کہ اس طرح کی مذہب تبدیلی میں متعلقہ افراد کے ساتھ ہی ملک و سماج پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔


عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح لفظوں میں کہا کہ شادی کرنے کے لیے لڑکیوں کا مذہب بدلوانا پوری طرح غلط ہے، کیونکہ مذہب بدلے بغیر بھی شادی کی جا سکتی ہے، رشتے نبھائے جا سکتے ہیں، ایک دوسرے کے مذہب اور اس کے طریقۂ عبادت کی عزت کر رشتوں کو مزید مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ الگ مذاہب کے لوگوں میں شادی اور رشتوں کو بہتر طریقے سے نبھانے میں مغل بادشاہ اکبر اور ان کی ہندو بیوی جودھا بائی کی شادی سے بہتر کوئی دوسری مثال نہیں ہو سکتی ہے۔ جودھا-اکبر کی یہ مثال عدالت نے ایٹہ ضلع کے جاوید عرف جابد انصاری کی ضمانت عرضی پر سنائے گئے فیصلہ میں دیا ہے۔

دراصل جاوید کے خلاف ایٹہ کے جلیسر تھانہ میں ایک ہندو لڑکی کو بہلا پھسلا کر بھگانے اور دھوکے سے مذہب تبدیل کرا کر اس کے ساتھ نکاح کرنے کی ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ متاثرہ لڑکی نے مجسٹریٹ کو دیے گئے بیان میں کہا تھا کہ جاوید نے سادے کاغذات اور اردو میں لکھے گئے دستاویزوں پر دستخط کرا کر دھوکے سے اس کا مذہب تبدیل کرا دیا۔ اس کے بعد پہلے سے شادی شدہ ہونے کی جانکاری چھپا کر دباؤ ڈال رک اس سے نکاح کر لیا۔ وہ جاوید کے ساتھ قطعی نہیں رہنا چاہتی۔ اس معاملے میں جاوید جیل میں ہے اور خود کو جیل سے رہا کیے جانے کے مطالبہ کو لے کر الٰہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی، جسے آج خارج کر دیا گیا۔


الٰہ آباد ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلہ پر ہندی نیوز پورٹل ’اے بی پی لائیو‘ نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ جسٹس شیکھر کمار یادو کی سنگل بنچ نے ملزم جاوید کی ضمانت عرضی خارج کر دی ہے اور اسے جیل سے رہا کیے جانے کا حکم دیے جانے سے انکار کر دیا ہے۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مذہب عقیدت کا موضوع ہوتا ہے، یہ بہتر طرز زندگی کے بارے میں بتاتا ہے۔ ایشور کے تئیں اپنی عقیدت کا اظہار کسی بھی طریقہ عبادت کے ذریعہ کیا جا سکتا ہے۔ عقیدت کے لیے کسی خاص مذہب کی عبادت کا ہونا قطعی ضروری نہیں ہوتا۔ کسی بھی شخص کو اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کر کے اس کا طریقۂ عبادت اپنانے کا پورا حق ہوتا ہے۔ جہاں مذہب کے تئیں اعتماد اور خودسپردگی نہیں ہوتی، وہاں تبدیلیٔ مذہب کسی لالچ، ڈر، دباؤ اور دھوکے کے ذریعہ ہوتی ہے۔ ایسی مذہب تبدیلی صفر ہے، اور اس کی کوئی آئینی یا قانونی حیثیت نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 03 Aug 2021, 9:11 PM