’ڈرائی اسٹیٹ‘ گجرات میں برسرعام شراب پارٹی کرتے نظر آئے بی جے پی لیڈران!

گجرات ایک ’ڈرائی اسٹیٹ‘ ہے، یعنی یہاں شراب پر سخت پابندی ہے، شراب کے پروڈکشن سے لے کر اس کے استعمال پر پابندی کے باوجود گجرات میں اکثر شراب پارٹی کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔

شراب، تصویر یو این آئی
شراب، تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

گجرات ایک ’ڈرائی اسٹیٹ‘ ہے، یعنی یہاں شراب پر سخت پابندی ہے، شراب کے پروڈکشن سے لے کر اس کے استعمال پر پابندی کے باوجود گجرات میں اکثر شراب پارٹی کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ جون ماہ میں بھیسن گاؤں (ضلع جوناگڑھ-سوراشٹر) کے سرپنچ نے اعلان کیا تھا کہ اگر کوئی نشہ کرتا ہوا پکڑا گیا تو گرام پنچایت کے ذریعہ اسے سزا دی جائے گی۔ اپنے اس فیصلے کو درست ٹھہراتے ہوئے سرپنچ جئے سنگھ بھاٹی نے کہا تھا کہ گاؤں میں شراب کا مسئلہ بڑھ گیا ہے۔ شراب کی وجہ سے 15 سے 20 خواتین بیوہ ہو گئی ہیں، کیونکہ گزشتہ دو سالوں میں ان کے شوہر کی موت نشے کے سبب ہوئی ہے۔

اتوار کی شب ولساڈ پولیس نے دھرم پور میں پارٹی کر رہے بی جے پی لیڈروں اور کارکنان کو گرفتار کر لیا تھا۔ ایک دن بعد پیر کو پولیس نے لنواڑا کے سابق رکن اسمبلی ہیرا بھائی پٹیل کے بیٹے مہرشی کو 39 بوتل آئی ایم ایف ایل اور بیئر کے ساتھ گرفتار کیا۔ ہیرا بھائی حال ہی میں بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔ یہ صرف ایک ادنیٰ مثال ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہےکہ گجرات میں کیسے برسرعام شراب کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ یہ وہ ریاست ہےجہاں مہاتما گاندھی کے نام پر شراب بندی نافذ کی گئی ہے۔ جس طرح سے شراب سے جڑے واقعات اکثر سامنے آ رہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت اور پولیس اس پالیسی اور مقرر ضابطوں کو نافذ کرانے کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔


مشہور گاندھی وادی اتم بھائی پرمار نے اس معاملے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’گاندھی جی کبھی بھی قانون کے ذریعہ شراب بندی نافذ کرنےمیں یقین نہیں کرتے تھے، کیونکہ انھوں نے اسے سماجی و معاشی ایشو کی شکل میں دیکھا تھا، نہ کہ قانون اور ایک حکم کی شکل میں۔ انھیں پتہ تھا کہ خواتین مردوں کی شراب کی عادت سے پریشان ہیں، اس لیے انھوں نے خواتین کو شراب کے ٹھکانے پر دھرنا دینے کے لیے راغب کیا، جو کامیاب رہا، لیکن دھرنے کا صحیح مطلب کبھی نہیں سمجھا گیا۔‘‘ پرمار نے الزام عائد کیا کہ پولیس کو شراب کے ٹھکانے پر چھاپہ ماری اور تلاشی لینے یا غیر قانونی تعمیر کے لیے مضبوط بنانے سے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ وہ شراب بندی کو نافذ کرنے میں کم سے کم دلچسپی رکھتے ہیں، اس کے برعکس وہ غیر قانونی دھندے سے جڑے لوگوں کو کاروبار جاری رکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انھیں اس کے لیے موٹی رشوت دینے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔

کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈر ارجن موڈھواڈیا نے سوال داغتے ہوئے کہا کہ ’’قصداً پالیسی کو نرمی روی کے ساتھ نافذ کیا گیا ہے، کیونکہ خامیوں کے ساتھ ایک یکساں معیشت بنا لی گئی ہے۔ پولیس محکمہ کے ذیلی حصے سے لے کر سیاسی لیڈروں سمیت اعلیٰ افسران بہت پیسہ کما رہے ہیں، تو وہ اسے سختی سے کیوں نافذ کریں گے؟‘‘ پرمار اور موڈھواڈیا شراب بندی کے خلاف ہیں اور دونوں کو پورا یقین ہے کہ صرف نام محض کے لیے ہی شراب بندی نافذ کی گئی ہے اور اس کا زمینی سطح پر کوئی اثر دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔


تجربہ کار سیاسی لیڈر شنکر سنگھ واگھیلا نے اس ایشو پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت کو یہ طے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ لوگ کیا کھائیں، کیا پئیں، کیا پہنیں۔‘‘ انھوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ’’کیا گاندھی جی صرف گجرات کے تھے؟ وہ ایک بین الاقوامی علامت اور بااثر شخص رہے ہیں، تو صرف گجرات میں ہی شراب بندی کیوں؟ جب راجستھان، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور مرکز کے زیر انتظام خطہ دادرا نگر حویلی اور دمن-دیو جیسی پڑوسی ریاستوں میں شراب ممنوع نہیں ہے، تو گجرات میں شراب بندی کو سختی سے نافذ کرنا ناممکن ہے۔‘‘

واگھیلا نے زوردار وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسمبلی کے اکثریت اراکین کو پابندی ہٹانے کی تجویز پاس کرنی چاہیے۔‘‘ انھوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت خواندہ قبائلی نوجوانوں کو مہوا سے شراب بنانے کا لائسنس دے، اسی طرح سوراشٹر کولی طبقہ میں شراب بنانے کے لیے لائسنس دیا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح سے شراب کو مہوا، چاول، گڑ کے لیبل کے ساتھ فروخت کیا جا سکتا ہے اور اس سے نوجوان خود کفیل بھی بنیں گے۔ واگھیلا کی دلیل ہے کہ ان ریاستوں میں بھی خواتین محفوظ ہیں جہاں شراب بندی نہیں ہے۔ گجرات میں خواتین کے تحفظ کو لے کر ایک غلط فہمی پھیلائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس ریاست میں زیادہ لوگ غیر قانونی طریقے سے تیار زہریلی شراب پینے سے مر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔