ہم اڈانی کے ہیں کون: کیا ہندوستانی فوڈ سسٹم کو پوری طرح سے اڈانی گروپ کو سونپنے میں سخت محنت کی گئی؟

جئے رام رمیش نے کہا کہ پورا ملک جانتا ہے آپ کے غلط زرعی قوانین کے پیچھے کی ترغیب ہندوستان کے خوردنی زرعی نظام کو آپ کے کچھ قریبی کارپوریٹ متروں کو سونپنا تھا۔

جئے رام رمیش، تصویر آئی اے این ایس
جئے رام رمیش، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے آج ایک بار پھر ’ہم اڈانی کے ہیں کون‘ سیریز کے تحت پی ایم مودی کے سامنے تین سوالوں کا نیا سیٹ پیش کر دیا ہے۔ انھوں نے جاری بیان میں لکھا ہے کہ ’’محترم وزیر اعظم مودی جی، جیسا کہ آپ سے وعدہ تھا، ہم اڈانی کے ہیں کون (ایچ اے ایچ کے) سیریز میں آپ کے لیے تین سوالات کا پچیسواں سیٹ پیش ہے۔ آج کے ہمارے سوالات آپ کی حکومت کے ذریعہ ہندوستان کا فوڈ سسٹم پوری طرح سے اڈانی گروپ کو سونپنے میں کی گئی سخت محنت سے متعلق ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ 21-2020 کی کسان تحریک کے ذریعہ صرف عارضی طور سے اس سازش کو ناکام کیا گیا تھا، جس سے آپ کو سیاہ قوانین کو واپس لینے کے لیے مجبور ہونا پڑا تھا۔‘‘ بعد ازاں انھوں نے تین سوالات پیش کیے جو اس طرح ہیں...

سوال نمبر 1:

پبلشنگ اڈانی واچ میں یہ بتایا گیا تھا کہ 13 اکتوبر 2022 کو ہندوستان کے سپریم کورٹ نے گجرات ہائی کورٹ کے 30 جون 2021 کے فیصلے کو منسوخ کر دیا ہے، جس میں سرکاری انکورپوریٹیڈ کمپنی ’سنٹرل ویئرہاؤسنگ کارپوریشن‘ (سی ڈبلیو سی) کی جگہ اڈانی پورٹس اور ایس ای زیڈ کی حمایت کی گئی تھی اور اس میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ’قانونی طور سے قابل قبول نہیں ہے‘۔ سی ڈبلیو سی کا قیام 1957 میں ہندوستان کے خوردنی ذخیرہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا تھا اور 22-2021 میں اس میں 55 لاکھ ٹن خوردنی اشیا کا ذخیرہ کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ تبصرہ کیا کہ صارفین امور، فوڈ اور پبلک ڈسٹریبیوشن وزارت نے سی ڈبلیو سی کے رخ کی حمایت کی تھی، جبکہ وزارت برائے کامرس و صنعت نے سی ڈبلیو سی کے ذریعہ اپنے گوداموں کو غیر نوٹیفائیڈ کرنے کے فیصلہ کی حمایت نہ کر کے، اڈانی ایس ای زیڈ کی شکل میں مندرا پورٹ کے پاس دو اہم سی ڈبلیو سی گوداموں پر کنٹرول کرنے کے لیے اڈانی کی بولی کی حمایت کی تھی۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’’دو متضاد آوازوں میں بولنا انڈین یونین کے لیے اچھا نہیں ہے‘‘ اور ’’انڈین یونین کے دو محکموں کو بالکل برعکس اسٹینڈ لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے‘‘۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ نرملا سیتارمن کی صدارت میں وزارت برائے کامرس و صنعت نے اسٹریٹجک طور سے اہم پبلک سیکٹر کے کارپوریشن کے خلاف اور آپ کے پسندیدہ کاروباری گروپ کے حق میں قدم کیوں اٹھایا۔ کیا وہ اوپر سے واضح ہدایات کے بغیر ایسا کرنے کی ہمت کر سکتی ہے؟


سوال نمبر 2:

پیوش گویل کے کامرس و صنعت وزیر (مئی 2019 میں) اور ساتھ ہی صارفین امور، فوڈ و پبلک ڈسٹریبیوٹر وزیر (اکتوبر 2020 میں) بننے کے بعد بھی یہ اڈانی متاثرہ بین ریاستی جدوجہد جاری رہی۔ اگر کارپوریٹ مفادات کے خواہاں مانے جانے والے وزیر پبلک سیکٹر کی اس یونٹ کی حمایت کرنے کی پیش قدمی نہیں کرتے ہیں جس کے لیے وہ ذمہ دار ہیں، تو کیا یہ مان لینا مدلل نہیں ہے کہ وہ اڈانی گروپ کے ساتھ ایک مضبوط ’الیکٹورل بانڈ‘ بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں؟

سوال نمبر 3:

پورا ملک جانتا ہے کہ آپ کے غلط زرعی قوانین کے پیچھے کی ترغیب ہندوستان کے خوردنی زرعی نظام کو آپ کے کچھ قریبی کارپوریٹ متروں کو سونپنا تھا۔ زرعی قوانین کے سب سے بڑے مستفیدین میں سے ایک اڈانی ایگری لاجسٹکس ہوتی، جو ہندوستانی فوڈ کارپوریشن کے سائلو معاہدوں کا اہم نفع کنندہ بن گیا ہے، جسے حال ہی میں اتر پردیش اور بہار میں 3.5 لاکھ میٹرک ٹن ذخیرہ قائم کرنے کا معاہدہ ملا ہے۔ اس درمیان اڈانی فارم-پک کو ہماچل پردیش میں سیب کی خرید پر تقریباً بالادستی قائم کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ کیا ہندوستان کا پبلک سیکٹر، جسے گزشتہ 70 سالوں کی سخت محنت سے کھڑا کیا گیا تھا، اب آپ کے کارپوریٹ متروں کو اور امیر بنانے کا وسیلہ بن کر رہ گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔