ہم اڈانی کے ہیں کون: اس بار کانگریس نے پی ایم مودی سے ’یو ڈی ایف‘ اور بجلی کو لے کر پوچھے تلخ سوالات

’’آپ نے اڈانی گروپ کو جو بالادستی فراہم کی ہے، اس سے اسے ان صارفین کو لوٹنے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے جو ہوائی اڈوں اور بجلی جیسی ضروری بنیادی سہولیات کا استعمال کرتے ہیں۔‘‘

کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش
کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش
user

قومی آوازبیورو

آج ایک بار پھر کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے ’ہم اڈانی کے ہیں کون‘ سیریز کے تحت تین سوالوں کا نیا سیٹ پیش کیا ہے۔ انھوں نے جاری بیان میں لکھا ہے کہ ’’محترم وزیر اعظم مودی جی، جیسا کہ آپ سے وعدہ تھا، ’ہم اڈانی کے ہیں کون‘ (ایچ اے ایچ کے) سیریز میں آپ کے لیے تین سوالوں کا 22واں سیٹ پیش ہے۔ آج ہم اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ آپ نے اڈانی گروپ کو جو بالادستی فراہم کی ہے، اس سے اسے ان صارفین کو لوٹنے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے جو ہوائی اڈوں اور بجلی جیسی ضروری بنیادی سہولیات کا استعمال کرتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد جئے رام رمیش نے اپنے تین سوالات پیش کیے ہیں جو اس طرح ہیں...

سوال نمبر 1:

لکھنؤ میں اڈانی کے ذریعہ آپریٹ ہندوستان کے گیارہویں سب سے مصروف ہوائی اڈے، چودھری چرن سنگھ بین الاقوامی ہوائی اڈہ نے مسافروں کے ذریعہ ادائیگی کیے جانے والے صارفین ڈیولپمنٹ فیس (یو ڈی ایف) میں زبردست اضافہ کی تجویز دی ہے۔ اگر ہوائی اڈہ اکونومک ریگولیٹری اتھارٹی (اے ای آر اے) کے ذریعہ اس تجویز کو منظوری دے دی جاتی ہے تو مالی سال 26-2025 تک گھریلو مسافروں کے لیے صارفین فیس 192 روپے سے بڑھ کر 1025 روپے اور بین الاقوامی مسافروں کے لیے 561 روپے سے بڑھ کر 2756 روپے ہو جائے گی۔ اڈانی کے ذریعہ آپریٹ احمد آباد ہوائی اڈے سے پرواز بھرنے والے گھریلو مسافروں کے لیے 26-2025 تک اس فیس میں چھ گنا اضافہ اور بین الاقوامی مسافروں کے لیے 12 گنا اضافہ کو پہلے ہی اے ای آر اے کے ذریعہ منظوری دے دی گئی ہے۔ اے ای آر اے نے اڈانی کے ذریعہ آپریٹ منگلورو ہوائی اڈے کے معاملے میں نہ صرف روانگی والے مسافروں کے لیے صارفین فیس میں اضافہ کیا ہے، بلکہ آمد والے مسافروں پر بھی فیس لگائی ہے۔ کیا نیتی آیوگ اور وزارت مالیات کے اعتراضات کے باوجود اپنے متر گوتم اڈانی کو چھ میں سے چھ ہوائی اڈے سونپ کر اسے ہوائی اڈوں کی بالادستی دینے کے آپ کے فیصلے کا یہ نتیجہ ہوائی سفر کرنے والے لوگوں کو نہیں بھگتنا پڑ رہا ہے؟ کیا انتخابی بانڈ کی شکل میں آپ کے ساتھیوں کے ذریعہ بی جے پی کے خزانے میں ڈالے جا رہے پیسے کی ادائیگی بھی عام ہوائی مسافروں کو اپنی جیب سے کرنی ہوگی؟


سوال نمبر 2:

2008 میں اڈانی پاور نے ہریانہ کی سرکاری بجلی ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کے ساتھ 2.94 روپے فی یونٹ کی غیر تبدیل شرح پر 25 سال کے لیے 1424 میگاواٹ بجلی کی فراہمی کرنے کے بجلی خرید معاہدے (پی پی اے) پر دستخط کیے تھے۔ انڈونیشیائی کوئلے کی قیمتیں بڑھنے کے بعد اڈانی نے غیر تبدیل ٹیرف کو بڑھانے کے لیے قانونی لڑائی لڑی، جو اس وقت ختم ہو گئی جب سپریم کورٹ نے 11 اپریل 2017 کو اپنے فیصلے میں کہا کہ انڈونیشیائی کوئلے کے اصولوں میں تبدیلی کو پی پی اے ترمیم کو متاثر کرنے والے قانون میں تبدیلی کی شکل میں نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ پھر بھی اڈانی نے دسمبر 2020 سے اپنی بجلی فراہمی سے متعلق ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا، جس سے ہریانہ کو 11.55 روپے فی یونٹ پر فوری بجلی خریدنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ منوہر لال کھٹر حکومت کے ذریعہ اپنی اختیاری فراہمی حاصل کرنے کی جگہ 27 جون 2022 کو ایک ضمنی پی پی اے کو منظوری دینے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے ذریعہ اڈانی سے 3.54 روپے فی یونٹ کی شرح سے 1200 میگاواٹ کی کم بجلی خرید کا فیصلہ ہوا اور بقیہ 224 میگاواٹ بجلی زیادہ بڑھی ہوئی قیمتوں پر اڈانی سے خریدنے کا فیصلہ ہوا۔ کیا آپ نے ایک بار پھر وزیر اعلیٰ کھٹر پر اپنے ساتھیوں کو اُبارنے کے لیے دباؤ ڈالا؟ اڈانی کے ذریعہ بی جے پی کے الیکشن بانڈ کی ادائیگی کے لیے ہریانہ کے صارفین سے کتنے ہزار کروڑ روپے کی لوٹ کی جائے گی؟

سوال نمبر 3: یکم مارچ 2023 کو اڈانی پاور نے بامبے اسٹاک ایکسچینج اور نیشنل اسٹاک ایکسچینج کے سامنے یہ انکشاف کیا کہ اس نے ہریانہ کی دو بجلی ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کے ساتھ ضمنی پی پی اے پر دستخط کیے ہیں۔ حالانکہ اس وقت تک ایسے کسی پی پی اے پر دستخط نہیں کیے گئے تھے۔ کیا یہ اڈانی کے ڈوبتے ہوئے شیئرس کو بچانے کی ایک بھدّی کوشش نہیں تھی؟ کیا یہ ایک ایسا معاملہ ہوگا جس میں سیبی آپ کے پسندیدہ کاروباری گروپ کے ذریعہ شدید خلاف ورزیوں اور دھوکہ دہی سے آنکھیں موند لے گا؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔