دہلی وقف بورڈ کے 70 سے زائد ملازمین کی برطرفی کا معاملہ فکر انگیز!

ایسا لگ رہا ہے جیسے دہلی وقف بورڈ کو ایک منصوبہ کے تحت تباہ و برباد کیا جا رہا ہے، کانٹریکٹ ملازمین کو کبھی وقت پر تنخواہ نہیں ملی لیکن ایک اُمید کی وجہ سے وہ وقف بورڈ میں ملازمت کر رہے تھے۔

<div class="paragraphs"><p>دہلی وقف بورڈ، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

دہلی وقف بورڈ، تصویر سوشل میڈیا

user

محمد تسلیم

نئی دہلی: ملک میں تیزی کے ساتھ بڑھتی مہنگائی و بے روزگاری کے درمیان دہلی وقف بورڈ سے 70 سے زائد ملازمین کی بر طرفی کی خبر جوں ہی عام ہوئی، دہلی کے سیاسی و سماجی اور ملی شخصیات نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ دراصل دہلی کے محکمہ وجلینس نے ایک آرڈر جاری کر کے دہلی وقف بورڈ کے تربیت یافتہ ملازمین کو فوراً ان کی ملازمت سے سبکدوش کرنے کا آرڈر جاری کیا ہے۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کلوندر یادو کے دستخط سے یہ لیٹر 13 اکتوبر کو جاری کیا گیا۔ اس میں 19 اگست 2023 کی ایک شکایت کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان نے دہلی حکومت کی منظوری لیے بغیر وقف بورڈ میں کانٹریکٹ پر ملازمین کی بھرتی کی ہے اور یہ غیر قانونی ہے۔ تاہم اسے رد کیا جائے، ساتھ ہی امانت اللہ خاں پر کارروائی کی جائے۔

ملازمین کی برطرفی کی سخت مذمت کرتے ہوئے آل انڈیا امام فاﺅنڈیشن کے چیئرمین عارف قاسمی نے کہا کہ ایک طرف دہلی وقف بورڈ کے امام و موذن گزشتہ 19 ماہ کی تنخواہ نہ ملنے سے قرض کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں، اب دہلی وقف بورڈ کے 70 سے زائد ملازمین فاقہ کشی کے پہلے زینہ پر قدم رکھ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی وبا کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے بعد سے ابھی تک لوگوں کی زندگی ٹھیک طرح سے معمول پر نہیں آئی ہے اور لوگ معاشی بحران کا شکار ہیں۔ ایسے حالات میں دہلی وقف بورڈ کے 70 سے زائد ملازمین کی اچانک سبکدوشی قابل مذمت بھی ہے اور قابل اعتراض بھی۔ انہوں نے کہا کہ آج راجدھانی دہلی کے اقلیتی ادارے تنزلی کا شکار ہیں اور ستم یہ ہے کہ ان اداروں کی بربادی پر جس طرح آواز بلند ہونی چاہئے وہ نہیں ہو رہی ہے۔


اُردو زبان کے محسن ڈاکٹر سید احمد خاں نے دہلی وقف بورڈ کے ملازمین کی اچانک برطرفی کے فیصلہ کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایک تو اقلیتی ادارہ ویسے ہی کمزور ہیں، حکومتیں اس کو مزید کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ وقف بورڈ سے 70 سے زائد ملازمین کو برطرف کرنے کا فیصلہ حکومت کی بدنیتی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ڈاکٹر سید احمد خان نے ملازمین کی برطرفی پر سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ جن ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے ان کو نئی تقرری سے قبل کیوں ہٹایا گیا؟ اس عمل سے وقف بورڈ کے کام پر برا اثر پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ بہت سنگین ہے اور حکومت کو اس پر سنجیدگی سے غور و خوض کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ایل جی کو بھی اس میں مداخلت کرنی چاہیے کیونکہ اس معاملہ میں ان کا رول بہت زیاد ہ اہم ہے۔

نام نہ شائع کرنے کی شرط پر دہلی وقف بورڈ کے ایک ملازمین نے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب دہلی وقف بورڈ میں ملازمین ہی نہیں ہوں گے تو بورڈ کیسے کام کرے گا۔ برطرفی کے بعد سے ملازمین کی روزی روٹی کا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔ بچوں کی اسکول فیس کی ادائیگی روز مرہ کے اخراجات، بیماری کا علاج اور دوسری ضروریات بے روزگاری میں کیسے پوری ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا کام روزگار دینا ہوتا ہے، نہ کہ بے روزگار بنانا۔ کانٹریکٹ ملازمین کو کبھی وقت پر تنخواہ نہیں ملی، لیکن ایک اُمید کی وجہ سے وہ وقف بورڈ میں ملازمت کر رہے تھے اور ابھی تقریباً 6 ماہ کی تنخواہ بقایہ ہے۔ 4 سال ملازمت کرنے کے بعد 70 سے زائد ملازمین کو نوکری ملنا آسان نہیں ہے۔ ان میں سے بیشتر کی عمر زیادہ ہو چکی ہے جو سرکاری ملازمت کے لیے درخواست بھی نہیں دے سکتے۔


سماجی کارکن شیخ علیم الدین اسعدی نے اس معاملے پر کہا کہ وقف ملازمین کی اچانک برطرفی کا فیصلہ پوری طرح غلط ہے۔ برطرف کیے گئے ملازمین کو برطرفی سے قبل پیشگی نوٹس دینا چاہیے تھا، لیکن انہیں بغیر پیشگی نوٹس کے برطرف کر دیا گیا جو کہ افسوسناک ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چار سال سے یہ ملازمین وقف بورڈ کی خدمت کر رہے تھے، اگر کچھ غلط تھا تو اب سے پہلے محکمہ وجلینس کہاں غائب تھا۔ اس مسئلہ پر ملت کے قائدین کو مل کر آواز اٹھانی چاہئے۔ شیخ علیم الدین نے یہ بھی کہا کہ آج دہلی میں لگتا ہے کہ مسلمانوں کی حق کی لڑائی لڑنے والا کوئی نہیں ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب اوقاف کے لیے آواز بلند ہوئی تھی اور غالباً 1978 کی بات ہے جب جمعیتہ کے سابق صدر مولانا اسعد مدنی نے پورے ہندوستان کے اوقاف کے تحفظ کے لیے کانفرنس منعقد کی تھی، جس سے اوقاف کو کافی فائدہ ہوا تھا۔

شیخ علیم الدین اسعدی نے وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ریحان رضا پر بھی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ وقف بورڈ کو چلانے میں سنجیدہ نہیں ہیں، کیونکہ وہ مسلسل غلط فیصلے کر رہے ہیں جس پر انہیں نظر ثانی کرنی چاہیے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ حالیہ ماہ وقف بورڈ کی وکلاء کی ٹیم کو بھی برطرف کیا گیا تھا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ وکلاء کی سابق ٹیم بھی دوبارہ بحال کی جائے، کیونکہ اس ٹیم میں شامل وکلاء کو وقف املاک کے معاملات کی اچھی معلومات تھی۔


سرفراز حسین نے ’قومی آواز‘ کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ملازمین کو ایک تیار کردہ پلان کے تحت ملازمت سے نکالا گیا ہے۔ وقف بورڈ کو کمزور کرنے کے لیے مسلسل ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے جس سے 123 وقف جائیدادوں کا راستہ صاف ہو سکے۔ اسی ضمن میں لیگل ٹیم کو برطرف کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جب دہلی وقف بورڈ میں ملازمین ہی نہیں ہوں گے تو ان کیسز کی پیروی کون کرے گا جو عدالت میں زیر التوا ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اب دہلی وقف بورڈ میں اعلی افسران بھی نہیں ہیں کیونکہ جو 28 پرماننٹ ملازمین دہلی وقف بورڈ میں باقی بچے ہیں ان میں زیادہ تر نچلے درجے کے ملازمین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بورڈ کے ایگزیکٹو آفیسر کے فیصلوں سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ وقف بورڈ کے حق میں نہیں بلکہ کسی کے اشارے پر فیصلہ لے رہے ہیں۔

خیال رہے کہ سال 2019 میں وقف بورڈ کے چیئرمین رہتے ہوئے امانت اللہ خان نے بورڈ کے روز مرہ کے کاموں اور وقف جائیدادوں کے سروے و دیگر کام کاج کے لیے 100 کے قریب ملازمین کو بھرتی کیا تھا۔ اس میں سے کچھ ملازمین کا کانٹریکٹ ختم ہو گیا اور باقی ملازمین ابھی تک دفتر وقف بورڈ میں اپنی خدمات بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ محکمہ وجلینس کی جانب سے جاری لیٹر کے بعد یہ بات واضح ہے کہ کانٹریکٹ پر رکھے گئے ملازمین بے روزگار ہو چکے ہیں۔ با وثوق ذرائع کے مطابق دہلی وقف بورڈ میں تقریباً 100 کے قریب ملازمین اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں جس میں لیگل اسٹاف سے لے کر انجینئر اور فیلڈ اسٹاف بھی شامل ہے۔ ان 100 ملازمین میں مجموعی طور پر 28 ملازمین ایسے ہیں جو پرانے ہیں اور مستقل ہیں، باقی ملازمین کانٹریکٹ پر ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔