مذہب تبدیلی کے خلاف قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیاں ہائی کورٹس سے سپریم کورٹ منتقل کرنے کا مطالبہ

آج سماعت کے دوران سٹیزنس فار جسٹس اینڈ پیس کی طرف سے سینئر ایڈووکیٹ سی یو سنگھ نے کہا کہ اس قانون نے ’سنگین حالت‘ پیدا کر دی ہے کیونکہ بین مذہبی جوڑے کی شادی میں مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ / آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ / آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

جمعیۃ علماء ہند نے مختلف ریاستوں کے تبدیلی مذہب مخالف قوانین کو چیلنج کرنے والی 6 ہائی کورٹس میں زیر التوا 21 عرضیوں کو سپریم کورٹ میں منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سینئر ایڈووکیٹ کپل سبل نے آج صبح چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کے سامنے عرضی کا تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ رجسٹری نے ہائی کورٹس میں مختلف عرضی دہندگان کی حمایت ضروری ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے منتقلی عرضی کو نمبر دینے سے انکار کر دیا۔

اس معاملے میں ’لائیو لاء‘ (ہندی) پر ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس کے مطابق کپل سبل نے بتایا کہ آئین کی دفعہ 139A(1) کے ضمن میں کوئی شخص مختلف ہائی کورٹس میں زیر التوا سبھی عرضیوں میں فریق نہ ہوتے ہوئے بھی سپریم کورٹ کے ذریعہ غور کے لیے منتقلی عرضی داخل کر سکتا ہے، اگر عرضی دہندہ ہائی کورٹس کے سامنے کسی بھی معاملے میں ایک فریق ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا چندرچوڑ اس معاملے کو دیکھنے کے لیے متفق ہوئے جب مذہب تبدیلی پر دیگر معاملوں کا بیچ دن کے دوران لیا جاتا ہے۔ جب بیچ لیا جائے گا تب چیف جسٹس آف انڈیا چندرچوڑ، جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس جے بی پاردیوالا کی بنچ نے منتقلی عرضی کے ساتھ آنے والے جمعہ کو بیچ پوسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔


جمعیۃ کی طرف سے پیش وکیل ایم آر شمشاد نے چیف جسٹس آف انڈیا کو معاملے کے نمبر پر رجسٹری کے اعتراض کے بارے میں یاد دلایا۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے انھیں بتایا کہ انھوں نے معاملے کو فہرست بند کرنے کی ہدایت دی ہے۔ گجرات، ہماچل پردیش، جھارکھنڈ، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش کے 6 ہائی کورٹس میں یہ عرضیاں زیر التوا ہیں۔ دو ریاستوں یعنی گجرات اور مدھیہ پردیش میں گجرات کے التزامات کے سلسلے میں جزوی روک لگا دی گئی ہے۔ گجرات ریاستی اور مدھیہ پردیش ریاست نے اپنے اپنے ہائی کورٹس کے مذکورہ عبوری احکامات کو چیلنج پیش کیا ہے۔

آج سماعت کے دوران سٹیزنس فار جسٹس اینڈ پیس کی طرف سے سینئر ایڈووکیٹ سی یو سنگھ نے کہا کہ قوانین نے ’سنگین حالت‘ پیدا کر دی ہے کیونکہ بین مذہبی جوڑے کی شادی کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی سینئر ایڈووکیٹ اندرا جئے سنگھ نے بنچ کو بتایا کہ ان کا معاملہ، جو کہ مدھیہ پردیش سے معاملے کے لیے منتقلی عرضی تھی، آج پہلے ہی فہرست بند تھا۔ انھوں نے منتقلی عرضی پر نوٹس جاری کرنے کی گزارش کیا۔ علاوہ ازیں ایڈووکیٹ ورندا گروور نے کہا کہ وہ نیشنل فیڈریشن آف وومن کی نمائندگی کر رہی تھیں جس نے خواتین پر مذہب تبدیلی مخالف قوانین کے اثرات کو دکھانے کے لیے ایک عرضی داخل کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔