دہشت گردی کا درد وہ ہی سمجھ سکتا ہے جس نے اس کو سہا ہو: راہل گاندھی  

راہل گاندھی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’آپ برف کے بیچ میں کھڑے ہیں اور آپ کو سردی نہیں لگ رہی، بارش میں آپ بھیگے اور گرمی میں آپ کو گرمی نہیں لگی کیونکہ ملک کی طاقت آپ کے ساتھ ہے۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی</p></div>

راہل گاندھی

user

سید خرم رضا

شدید برفباری کے بیچ کانگریس کے سابق صدر اہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کے اختتام پر انتہائی جذباتی انداز میں دہشت گردی پرحملہ کیا اور کہا کہ وہ لوگ اس درد کو نہیں سمجھ سکتے، جنہوں نے دہشت گردی اور تشدد کو خود نہ سہا ہو۔ انہوں نے اپنے خطاب میں ان دو فون کال کا ذکر کیا جو ان کو اپنی دادی اندرا گاندھی اور والد راجیو گاندھی کے انتقال کی خبر دینے کے لئے کئے گئے تھے۔ اپنے خطاب میں انہوں وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور قومی سلامتی مشیر اجیت ڈووال پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ درد وہ نہیں سمجھ سکتے یہ درد ایک کشمیری اور ایک فوجی سمجھ سکتا ہے جس کے پاس ایسے فون آتے ہیں۔ راہل نے کہا کہ کل جب ان سے پوچھا گیا کہ اس یاترا سے کیا حاصل ہوا تو وہ اسی وقت بتانا چاہتے تھے لیکن وہ آج بتا رہے ہیں کہ یاترا کا مقصد ہے کہ ’’ایسے فون کال بند ہونے چاہئے۔‘‘

راہل گاندھی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’آپ برف کے بیچ میں کھڑے ہیں اور آپ کو سردی نہیں لگ رہی، بارش میں آپ بھیگے اور گرمی میں آپ کو گرمی نہیں لگی کیونکہ ملک کی طاقت آپ کے ساتھ ہے۔‘‘ انہوں نے یاترا سے متعلق اپنی تکالیف اور تجربات کو ساجھا کرتے ہوئے بتایا کہ ’’میں بہت سالوں سے ہر روز آٹھ دس کلومیٹر دوڑتا ہوں اس لئے مجھے لگا تھا کہ میرے لئے چلنا مشکل نہیں ہوگا یعنی تھوڑا سا تکبر آگیا تھا۔ جب میں چھوٹا تھا تو فٹبال کھیلتا تھا، مجھے ایک دفع کھیلتے وقت گھٹنے میں چوٹ لگ گئی تھی اور میں اس کو بھول گیا تھا کیونکہ وہ ٹھیک ہو گئی تھی لیکن کنیا کماری سے پانچ دن چلنے کے بعد گھٹنے میں شدید تکلیف ہوئی جس نے میرا وہ غرور توڑ دیا، لیکن بعد میں یہ یاترا جاری رہی اور آج پوری ہو گئی۔‘‘


انہوں نے یاترا کے دوران دوسرے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ایک دن کافی درد ہو رہا تھا اور اس دن مجھے آگے چلنا مشکل لگ رہا تھا، اسی درمیان ایک بچی دوڑتی ہوئی آئی اور اس نے کچھ لکھا ہوا پرچا دیا اور کہا کہ اس کو بعد میں پڑھ لیجئے گا۔ جب اس کا لکھا ہوا پرچہ پڑھا تو اس میں لکھا تھا مجھے احساس ہے کہ آ پ کے گھٹنے میں درد ہے کیونکہ آپ جب اس پیر پر دباؤ ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے۔ میں اس یاترا میں آپ کے ساتھ چلنا چاہتی تھی لیکن گھر والے اجازت نہیں دے رہے اور مجھے لگتا ہے کہ آپ میرے لئے چل رہے ہو۔ اس کا لکھا ہوا پڑھ کر میرا درد غائب ہو گیا۔‘‘

ایک تیسرے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ یاترا کے دوران ٹی شرٹ کیوں پہنے ہوئے تھے’’سردی بڑھ رہی تھی کہ چار بچے آئے جو چھوٹے تھے اور شائد بھیک مانگتے تھے یا مزدوری کرتے تھے۔ میں نیچے ہو کر ان کے ساتھ گلے لگا۔ ان کو ٹھنڈ لگ رہی تھی وہ کانپ رہے تھے، تو میں نے سوچا کہ یہ سوئٹر نہیں پہنے ہوئے ہیں اور انہیں سردی نہیں لگتی تو مجھے لگا کہ میں مجھے بھی سردی کا احساس نہیں کرنا چاہئے۔‘‘


بھارت جوڑو یاترا کے دوران اپنے تجربات کا ایک اور ذکر کرتے ہوئے راہل گاندھی نے بتایا کہ ’’بہت ساری خواتین رو رہی تھیں، کچھ خواتین نے یہ بھی بتایا کہ ان کے ساتھ جسمانی زیادتی کی گئی ہے جس کو سننے کے بعد میں نے ان سے کہا کہ پولیس کو بتاؤں تو انہوں نے کہا کہ نہیں بتائیں کیونکہ پولیس کو بتانے سے ہماری پریشانی بڑھ سکتی ہے۔‘ انہوں نے اس واقع کا ذکر کرتے ہوئے موجودہ حالات پر افسوس کا اظہار کیا۔

راہل گاندھی نے بتایا کہ وہ جب نیچے سے اوپر کی جانب جا رہے تھے یعنی کشمیر کی جانب تو انہیں احساس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ گھر کی جانب جا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ویسے میرے لئے گھر کا مطلب ایک سوچ ہے، کیونکہ ویسے تو میں بچپن سے سرکاری مکان میں ہی رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وہ کشمیریت کو اپنا گھر مانتے ہیں۔ انہوں نے شیوجی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس نظریہ میں شونیتا (صفر) ہے اور اسلام میں بھی ہر شہ کے فنا ہونے ذکر ہے یعنی دونوں مذہبی نطریوں میں فنا ہونے کے بارے میں ہی کہا گیا ہے اور فنا ہونا اپنی سوچ یعنی میں یہ ہوں کے قلع پر حملہ کرنا ہے۔ اس خیال کا گجرات، آسام، کرناٹک، مہاراشٹرا، لداخ وغیرہ میں الگ الگ ناموں سے ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں پر یہ کشمیریت کے نام سے جانی جاتی ہے یعنی سب کو ایک ساتھ جوڑنا۔ راہل گاندھی نے کہا کہ ہمارے رشتہ دار کشمیریت کی سوچ کو اپنے ساتھ گنگا کی جانب لے گئے تھے اور انہوں نے اس کو گنگا میں ڈالا تھا جس کو انہوں نے اتر پردیش میں پھیلایا۔‘


یاترا کے آخری دور کی دشواریوں پر بولتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’سیکورٹی والوں نے کہا تھا کہ آپ سب جگہ چل سکتے ہیں لیکن آخری چار دن جو کشمیر میں چلیں گے وہاں آپ کو گاڑی سے چلنا ہوگا۔ مقامی انتظامیہ نے کہا، شائد ڈرانے کے لئے، یہاں گرینیڈ پھینکے جا سکتے ہیں لیکن لوگوں نے میرا استقبال کیا اور گرینیڈ نہیں پھینکے۔‘‘ راہل نے کہا کہ وہ جموں و کشمری کے لوگوں، فوجیوں اور سب سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ تشدد کو سمجھتے ہیں کیو نکہ انہوں نے سب کچھ سہا اور دیکھا ہے۔ انہوں نے اس کو لے کر وزیر اعظم اور وزیر داخلہ امت شاہ پر حملہ کرتے ہوئے کہ وہ یہاں نہیں چل سکتے کیونکہ وہ ڈرتے ہیں۔‘‘

راہل گاندھی نے جذباتی انداز میں اپنی دادی اور والد کے انتقال کے بارے میں بتایا ’’جب میں 14 سال کا تھا تو میں جغرافی کی کلاس میں تھا تب میری ایک ٹیچر نے مجھ سے کہا کہ پرنسپل بلا رہے ہیں، میں تھوڑا فکرمند ہوا کیونکہ میں بچپن میں شیطان بہت تھا ڈر اس لئے تھا کہ پرنسپل نے بلایا ہے تو خیر نہیں ہے۔ جب میں پرنسپل کے دفتر پہنچا تو انہوں نے بتایا کہ تمہارے گھر سے فون آیا ہے۔ میرے گھر میں جو کام کرتی تھیں انہوں نے بتایا کہ دادی کو گولی مار دی۔‘‘ راہل گاندھی نے کہا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں وہ بات مودی جی، امت شاہ اور ڈووال جی کو سمجھ میں نہیں آئے گی، یہ بات کشمیر کے لوگوں کو اور یہاں کے فوجیوں کو سمجھ میں آئے گی۔ راہل گاندھی نے جذباتی انداز میں کہا کہ یہ فون آپ کے لئے ایک فون ہو سکتا ہے لیکن ہمارے لئے یہ کچھ اور ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ امریکہ میں تھے تو پھر ایک فون آ یا اور اس مرتبہ اس فون پر ان کے والد کے انتقال کی خبر تھی۔ انہوں نے کہا یہ فون ایسا ہی تھا جیسے پلوامہ کے شہیدوں کے گھر گیا تھا یا کشمیر میں مرنے والوں کے پاس آتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’مودی، امت شاہ اور ڈووال جیسے لوگ نہیں سمجھ سکتے کہ یہ فون کال کیا ہوتی ہیں، ایسے فون پلوامہ اور کشمیری کے لوگوں کے پاس آتے ہیں۔‘‘


راہل گاندھی نے کہا کہ ’’بی جے پی آر ایس ایس کے لوگ مجھے گالی دیتے ہیں اور میں ان کا دل سے شکر گزار ہوں۔‘‘ راہل گاندھی نے کہا کہ ان کے لئے پہلے کشمیریت ہے اور یہ (بی جے ہی و آر ایس ایس) اسی نظریہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے یہ یاترا اپنے لئے نہیں، کانگریس کے لئے نہیں بلکہ ملک کے لئے کی ہے جو ایک چھوٹا سا قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو نظریہ اس ملک کی نیو توڑنے کی کوشش کر رہا ہے یہ اس کے خلاف لڑائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس اس نظریہ کو صرف ہرائے گی نہیں بلکہ ان کے دل سے بھی نکال دے گی۔ راہل گاندھی نے کہا کہ ایک طریقہ بی جے پی کا ہے جس کو سب نے دیکھا ہے اور ایک ہمارا ہے جس کے ذریعہ نفرت کو شکست دینا اور محبت کو پھیلانا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔