یوپی میں 35 فیصد اراکین اسمبلی پر مجرمانہ معاملے درج، سب سے زیادہ کا تعلق بی جے پی سے، اے ڈی آر رپورٹ میں انکشاف

ایسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) نے منگل کو اتر پردیش اسمبلی میں 396 موجودہ اراکین اسمبلی کو لے کر ایک تفصیلی رپورٹ جاری کیا ہے۔

اتر پردیش اسمبلی، تصویر آئی اے این ایس
اتر پردیش اسمبلی، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

ایسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) نے منگل کو اتر پردیش اسمبلی میں 396 موجودہ اراکین اسمبلی کو لے کر ایک تفصیلی سروے رپورٹ جاری کی ہے۔ اے ڈی آر کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 35 فیصد (140) اراکین اسمبلی کے خلاف مجرمانہ معاملے درج ہیں اور 27 فیصد اراکین اسمبلی کے جرائم سے کسی نہ کسی طرح کے رشتے ہیں۔

304 اراکین اسمبلی میں سے 77 کے خلاف مجرمانہ معاملے ہیں، جب کہ 49 رکنی سماجوادی پارٹی میں 18 اراکین اسمبلی بھی اس درجے میں آتے ہیں۔ بی ایس پی میں 2 اراکین اسمبلی کی مجرمانہ تاریخ ہے، جب کہ کانگریس کا ایک رکن اسمبلی اس درجہ میں شامل ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 396 اراکین اسمبلی میں سے 313 کروڑپتی ہیں۔


304 اراکین اسمبلی والی بی جے پی کے پاس 235 کروڑپتی اراکین اسمبلی ہیں اور 49 اراکین اسمبلی میں سماجوادی پارٹی کے 42 کروڑپتی ہیں۔ بی ایس پی کے پاس 15 کروڑپتی اراکین اسمبلی ہیں، جب کہ کانگریس کے 5 اراکین اسمبلی کروڑپتی ہیں۔ بی ایس پی میں سب سے امیر رکن اسمبلی اعظم گڑھ سے گڈو جمالی اور گورکھپور سے ونے تیواری ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی کے دو اراکین اسمبلی، جو وزیر بھی ہیں، ان کے اوپر قرض ہے۔ یہ اراکین اسمبلی ہیں نند گوپال نندی اور سدھارتھ ناتھ سنگھ۔ کم ملکیت والے اراکین اسمبلی میں کانگریس کے اجے کمار للو اور بی جے پی کے دھننجے اور وجے راجبھر شامل ہیں۔

396 اراکین اسمبلی میں سے 95 درجہ 12 تک پڑھے ہوئے ہیں۔ 4 اراکین اسمبلی صرف خواندہ ہیں، جب کہ 5 ڈپلوما کر چکے ہیں۔ تقریباً 206 اراکین اسمبلی 25 سے 50 سال کی عمر کے درمیان ہیں، جب کہ 190 اراکین اسمبلی 51 سے 80 سال کے درمیان کے ہیں۔ اے ڈی آر کے کوآرڈنیٹر سنتوش شریواستو کا کہنا ہے کہ اسمبلی انتخاب سے پہلے سروے اس لیے کیا گیا تاکہ لوگ اپنے اراکین اسمبلی کو جان سکیں۔ انھوں نے کہا کہ عام طور پر ہم انتخاب سے پہلے اس طرح کے سروے کرتے ہیں، لیکن وہ سلسلہ وار طریقے سے کیے جاتے ہیں، اس لیے اس بار ہم نے اسے وسیع پیمانے پر کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔