سابقہ حکومت کی نجکاری پالیسی پر کانگریس نے وزارتِ اسٹیل کے نئے وزیر ایچ ڈی کمار سوامی سے پوچھے 5 سوالات

کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر محکمہ اسٹیل کے نئے وزیر ایچ ڈی کمار سوامی سے کیے گئے سوالات کنّڑ، انگریزی اور ہندی تینوں زبانوں میں پوسٹ کئے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>ایچ ڈی کمار سوامی / تصویر: آئی اے این ایس</p></div>

ایچ ڈی کمار سوامی / تصویر: آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

نئی تشکیل شدہ این ڈی اے حکومت میں ایچ ڈی کمار سوامی کو اسٹیل کی وزارت دی گئی ہے۔ ان کے اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد کانگریس نے ان سے اس وزارت سے متعلق 5 سوالات پوچھے ہیں۔ کانگریس جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ کے اپنے اکاؤنٹ پر ایچ ڈی کمار سوامی سے یہ سوال کنّڑ، انگریزی اور ہندی تینوں زبانوں میں کیے ہیں۔

کانگریس کے جنرل سکریٹری نے کہا ہے کہ ایچ ڈی کمارسوامی اس زنگ آلود حکومت میں اسٹیل کے نئے وزیر ہیں، ان سے یہ 5 سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔

  • ایک تہائی وزیر اعظم کی سابقہ انتظامیہ نے راشٹریہ اسپات نگم لمیٹڈ (آر آئی این ایل)، جسے عام طور پر ’ویزاگ اسٹیل پلانٹ‘ کہا جاتا ہے، وزیر اعظم کے دوستوں کو فروخت کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ 1 لاکھ سے زیادہ افراد اپنی روزی روٹی کے لیے ویزاگ اسٹیل پلانٹ پر انحصار کرتے ہیں۔ جنوری 2021 میں اقتصادی امور کی کابینہ کمیٹی کے ذریعے آر آئی این ایل  اور اس کے مشترکہ منصوبوں و ذیلی اداروں کی 100 فیصد نجکاری کی منظوری کے بعد آر آئی این ایل یونین تین سالوں سے پرامن احتجاج کر رہی ہیں۔ اسٹیل پلانٹ کے کارکنان کی رپورٹ ہے کہ جان بوجھ کر حکومتی لاپرواہی کے ذریعے ایک ایسے اسٹیل پلانٹ کو بڑھتے خسارے میں ڈھکیلا جا رہا ہے جو ایک وقت میں مستحکم ہوا کرتا تھا۔ کیا جناب کمارسوامی تحریری وعدہ کریں گے کہ وہ ویزاگ اسٹیل پلانٹ کو ایک تہائی وزیر اعظم کے صنعتکار دوستوں کو نہیں بیچیں گے؟

  •  2019 میں ایک تہائی وزیر اعظم کی سابقہ ​​انتظامیہ نے سیلم اسٹیل پلانٹ میں سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جلد ہی تقریباً 2000 لوگوں کی ایک بڑی ریلی اس مخصوص اسٹیل یونٹ کی نجکاری کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر اتر آئی۔ ریلی میں مزدور، ان کے خاندان کے افراد اور بہت سے کسان شامل تھے جنہوں نے پلانٹ کی تعمیر کے لیے اپنی زمینیں قربان کر دی تھیں۔ پلانٹ تقریباً 25 دیہاتوں پر محیط ہے جن میں سے 18 یا 19 یونٹ تعمیر کے بعد سے بند ہوگیا ہے۔ مزدوروں نے الزام لگایا کہ پلانٹ کو جان بوجھ کر بدانتظامی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اسٹیل اتھارٹی آف انڈیا لمیٹڈ کی قیادت حکمراں پارٹی کے ترجمان تک محدود ہوگیا ہے۔ مرکز اب تک یونٹ کو فروخت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ کیا جناب کمارسوامی اس یونٹ کی نجکاری کو آگے بڑھائیں گے؟


  • ایک تہائی وزیر اعظم نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت کے ذریعے شروع کیے گئے نگرنار اسٹیل پلانٹ کو اکتوبر 2023 میں بڑے دھوم دھام سے عوام کو منسوب کیا تھا۔ بَستر کے لوگوں کو امید تھی کہ 23,800 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والا یہ عظیم الشان پلانٹ بَستر کی ترقی میں تیزی لائے گا اور مقامی نوجوانوں کے لیے روزگار کے ہزاروں مواقع پیدا کرے گا۔ سچائی یہ ہے کہ ایک تہائی وزیر اعظم 2020 سے اس پلانٹ کی نجکاری کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جب انہوں نے اپنے ساتھیوں کو 50.79 فیصد کی اکثریتی حصے داری فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ گزشتہ سال اسمبلی انتخابات سے پہلے وزیر داخلہ امت شاہ بَستر آئے اور وعدہ کیا کہ پلانٹ کی نجکاری نہیں کی جائے گی۔ کیا جناب کمارسوامی اس وعدے پر پورا اتریں گے یا وہ اس اسٹیل پلانٹ کو ایک تہائی وزیر اعظم کے قریبی دوستوں اور فنانسروں کو بیچ دیں گے؟

  • اکتوبر 2022 سے ایک تہائی وزیر اعظم کی سابقہ ​​انتظامیہ نے ہمارے باہمی آبائی ریاست کرناٹک کے بھدراوتی میں ’سیل‘ کے ویشویشریا آئرن اینڈ اسٹیل پلانٹ کو بند کرنے کا آغاز کیا۔ اس کے بعد حکومت نے پارلیمنٹ میں یہ عذر پیش کیا کہ پلانٹ کے پاس کرناٹک میں لوہے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے - یہ ایک بڑا جھوٹ ہے کیونکہ بھدراوتی بلاری سے 250 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ہے۔ دراصل اکتوبر 2011 میں ’سیل‘ کو کان کنی کی لیز الاٹ کی گئی تھی۔ کیا جناب کمارسوامی پلانٹ کو بند کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے اسے بحال کرنے کے لیے فوری قدم اٹھائیں گے؟

  • ایک تہائی وزیر اعظم کی سابقہ ​​انتظامیہ نے درگاپور میں الائے اسٹیل پلانٹ کو فروخت کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے بعد سے ایسا لگتا ہے کہ یہ ملتوی ہو گیا ہے لیکن ایک تہائی وزیر اعظم کے ذریعے بار بار کیے گئے الٹ پھیر کی وجہ سے درگاپور کے لوگوں کو اس پروجیکٹ کے مستقبل کے لیے حکومت کے منصوبوں پر بہت کم اعتماد ہے۔ کیا جناب کمارسوامی درگاپور اور مغربی بنگال کے لوگوں کو یقین دلاسکتے ہیں کہ وہ اسٹیل پلانٹس کی نجکاری کی نگرانی نہیں کریں گے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔