بھارت جوڑو یاترا: راہل گاندھی کی قبائلی طبقہ کے نمائندہ وفد سے سیر حاصل گفتگو، کئی مسائل حل طلب

راہل گاندھی کے سامنے قبائلی طبقہ کے نمائندہ وفد میں شامل ایک شخص نے قبائلی علاقوں میں مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے کوچنگ سینٹرز کی ضرورت کا اظہار کیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

’بھارت جوڑو یاترا‘ کیرالہ میں اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ بھارت یاتریوں نے 19 دنوں میں تقریباً 420 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر لیا ہے۔ کیرالہ میں 15 دنوں کے دوران یاترا کی قیادت کر رہے کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقات کی۔ الگ الگ مکتبہ فکر اور الگ الگ شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے راہل گاندھی کو اپنے مسائل کھل کر بتائے بھی اور کانگریس لیڈر کو ذمہ داری سونپی کی وہ ان مسائل کو پارلیمنٹ میں اٹھائیں۔ بھارت جوڑو یاترا کے تحت آج راہل گاندھی نے خاص طور پر پلکڑ ضلع کے اٹاپڈی میں قبائلی برادریوں کے لیڈروں اور نمائندوں سے ملاقات کی۔

اس ملاقات اور بات چیت کا آغاز اتحاد پر مبنی ایک گیت سے ہوا جسے قبائلیوں کے وفد نے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے لیے وقف کیا تھا۔ گانے کے ساتھ رقص بھی پیش کیا گیا جو انتہائی دلکش تھا۔ راہل گاندھی نے اس پرفارمنس کی دل کی گہرائیوں سے تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ تقریباً رقص کرنے کے لیے اٹھ گئے، لیکن چونکہ وہ اسٹیپس نہیں جانتے تھے، اس لیے انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اگلی بار اسٹیپس سیکھیں گے اور ان کے ساتھ رقص کریں گے۔


راہل گاندھی کے سامنے وفد کے ایک نمائندہ نے قبائلی علاقوں میں مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے کوچنگ سینٹرز کی ضرورت کا اظہار کیا۔ اسی طرح قبائلی طب کی مشق کرنے والے کمیونٹی کے ایک ڈاکٹر نے قبائلی ادویات کو آیوش میں شامل کرنے کی گزارش بھی کی۔ وفد میں شامل کچھ لوگوں نے قبائلی طلباء میں اسکول اور کالج چھوڑنے کی روش کو روکنے کے لیے رہنمائی پر مبنی پروگراموں کی ضرورت پر زور دیا۔

راہل گاندھی نے سبھی لوگوں کی باتیں بغور سنیں اور انھیں یقین دلایا کہ ان مسائل کو دور کرنے کا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔ راہل گاندھی نے امریکہ میں کی گئی ایک تحقیق کا بھی تذکرہ کیا جس میں اخذ کیا گیا کہ افریقی نژاد امریکیوں اور مقامی آبادیوں کو SAT میں پیش ہوتے ہوئے واضح اور پوشیدہ دونوں طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک ایسا تعلیمی نظام جو امتحانات کو ڈیزائن کرتے وقت قبائلیوں کے تجربات کو مدنظر نہیں رکھتا ہے، قبائلی طلباء کو نقصان میں ڈالتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’میں مانتا ہوں کہ قبائلی ثقافت ہر دوسری ثقافت کی طرح اہم ہے۔ بہتر نہیں، لیکن تمام ثقافتوں کے برابر ہے۔‘‘


راہل گاندھی نے اس درمیان پایا کہ قبائلی لوگ جنگلات کے بہترین محافظ ہیں اور نوکرشاہوں اور ماہرین کے مقابلے ماحول کو زیادہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات قابل فہم ہے کہ قبائلی طالب علم اس اسکولنگ سسٹم میں گھٹن محسوس کر سکتے ہیں جو تعلیمی نظام میں ان کی روایات اور عقائد کو شامل نہیں کرتا ہے۔ ہمیں اپنے نصاب میں قبائلی ثقافت کے عناصر کو شامل کرنا ہوگا۔

قبائلیوں نے راہل گاندھی سے بات چیت کرتے ہوئے حکومت کی طرف سے ان کی عبادت گاہوں پر قبضہ کرنے اور انہیں باہر دھکیلنے کی بھی شکایت کی۔ انھوں نے بتایا کہ اب وہ پوجا کرنے کے لیے رقوم کی ادائیگی پر مجبور ہیں اور انہیں دیوتاؤں کو چھونے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ وفد میں شامل ایک قبائلی نے بہتر طبی سہولیات اور ہسپتالوں کی درخواست کی کیونکہ انہیں کسی بھی ایمرجنسی کے دوران طویل فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے خوراک کی تبدیلیوں اور اس کے اثرات کا بھی ذکر کیا۔ راہل گاندھی قبائلیوں کے کھانے اور ادویات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتے تھے۔ انہوں نے ان سے پوچھا کہ باجرہ اور راگی سے چاول میں تبدیلی نے ان کی صحت پر کیا اثر ڈالا ہے۔


ایک دیگر قبائلی نے اپنی ثقافت اور روایات کو بچانے کے لیے راہل گاندھی سے مدد مانگی۔ انہوں نے ایک میوزیم اور آرٹس سنٹر کی درخواست کی۔ راہل گاندھی نے یہ محسوس بھی کیا کہ یہ بہت ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ قبائلی نوجوان اپنی ثقافت اور روایات پر فخر کریں۔ انہوں نے قبائلی نوجوانوں کے لیے لیول پلیئنگ گراؤنڈ کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔