کرناٹک: قبل از انتخاب سروے میں کانگریس کو واضح اکثریت، بومئی اپنے پیشروؤں کے مقابلے سب سے بدعنوان وزیر اعلیٰ

سروے 3 مارچ سے 21 اپریل تک کرناٹک کے 204 حلقوں میں کرایا گیا ہے، 28 اپریل کو کنڑ نیٹورک کی ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ سروے میں مجموعی طور پر 41,169 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر آئی اے این ایس</p></div>

علامتی تصویر آئی اے این ایس

user

ناہید عطا اللہ

کرناٹک میں اسمبلی انتخاب 10 مئی کو ہونا ہے، اور اس سے ٹھیک پہلے کنڑ ڈیجیٹل پلیٹ فارم ’ایڈینا‘ نے قبل از انتخاب سروے کرایا ہے جو بی جے پی کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ اس سروے کے مطابق 224 رکنی کرناٹک اسمبلی میں کانگریس کو 132 سے 140 سیٹیں ملنے کا امکان ہے جو کہ پارٹی کے لیے ایک بہت اچھی پوزیشن ہوگی۔ سروے میں حکمراں بی جے پی کو محض 57 سے 65 سیٹیں حاصل ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں، جبکہ ’کنگ میکر‘ بننے کی امید لگائے بیٹھی جنتا دل (ایس) کو 19 سے 25 سیٹیں ملتی نظر آ رہی ہیں۔

یہ سروے 3 مارچ سے 21 اپریل تک کرناٹک کے 204 حلقوں میں کرایا گیا ہے۔ 28 اپریل کو کنڑ نیٹورک کی ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ مجموعی طور پر 41,169 افراد کو الیکٹورل لسٹ میں سے بے ترتیب انداز میں منتخب کیا گیا تھا اور ان کی رہائش گاہوں پر پہنچ کر ’ایڈینا‘ نیٹورک کے تربیت یافتہ مقامی صحافیوں کے ذریعہ انٹرویو لیا گیا تھا۔ ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ’’علاقوں کے لحاظ سے، سروے سے پتہ چلتا ہے کہ کانگریس حیدرآباد کرناٹک اور ممبئی کرناٹک کے شمالی علاقوں میں کلین سویپ کر سکتی ہے، جبکہ بی جے پی ساحلی اور وسطی کرناٹک میں اپنی برتری حاصل کر سکتی ہے۔ جنوب میں بی جے پی اپنا ووٹ شیئر بہتر کر سکتی ہے، لیکن زیادہ سیٹیں نہیں جیت سکتی۔ جنتا دل (ایس) کو بھی جنوبی کرناٹک میں کانگریس سے سیٹیں کھونے کا امکان ہے۔‘‘ ایڈینا سروے کے کوآرڈینیٹر واسو ایچ وی نے ’دی وائر‘ کو بتایا کہ ’’اگر سروے کے نتائج درست ثابت ہوتے ہیں تو صاف ہے کہ بدعنوانی اور نااہلی وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔‘‘


مشہور ماہر نفسیات اور ماہر سیاسیات یوگیندر یادو نے ’دی پرنٹ‘ میں کہا کہ ایڈینا کے سروے میں جو چیز ان کی دلچسپی والی تھی وہ اس کا عوامی کردار تھا۔ ایڈینا گروپ نے پولنگ ایجنسی کے معاوضہ لینے والے پیشہ ور افراد کی خدمات حاصل کرنے کی جگہ تقریباً 1,000 شہری صحافیوں کی مدد لی جنھیں تربیت دی گئی تھی۔ ان کے نمونے لینے کا عمل بھی سخت تھا (بوتھوں کا بے ترتیب انتخاب اور نمونے کے لیے ووٹرز کی فہرست سے ووٹرز کا بے ترتیب انتخاب)۔ یہی وجہ ہے کہ میرے خیال سے سروے کے نتائج کو سنجیدگی سے لیا جا سکتا ہے۔

سروے کے نتائج تک پہنچنے کے لیے اپنائے گئے طریقہ کار پر عظیم پریم جی یونیورسٹی کے اسکول آف پالیسی اینڈ گورننس کے پروفیسر یادو اور اے نارائن کے ساتھ ایڈینا کے ذریعہ منعقدہ پینل بحث میں واسو ایچ وی کہتے ہیں کہ ہر حلقے میں کمپیوٹر کے ذریعے 16 پولنگ بوتھوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔ 41,169 نمونوں میں، 17 فیصد لنگایت برادری سے، 10.9 فیصد ووکالیگا سے، 4.6 فیصد اقتصادی طور پر کمزور طبقے سے تھے جن میں برہمن بھی شامل تھے، کروبا 8.5 فیصد اور مسلمان 10 فیصد تھے۔ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 2018 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے ووٹوں کا حصہ 36 فیصد سے کم ہو کر 33 فیصد اور جنتا دل (ایس) کا 18 فیصد سے 16 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ دوسری طرف کانگریس 38 فیصد سے 43 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔


اس سروے میں ووٹروں سے پوچھے گئے سوالات میں سے ایک سوال یہ تھا کہ ’کیا بسوراج بومئی کی قیادت والی حکومت ایک اور موقع کی مستحق ہے؟‘ برآمد نتائج کے مطابق 67 فیصد لوگ نہیں چاہتے تھے کہ موجودہ حکومت کو دوسرا موقع دیا جائے، جس میں بی جے پی کے کچھ ارکان بھی شامل تھے۔ واسو نے پینل مباحثہ میں کہا کہ ’’یہ ہمارے لیے پہلا اشارہ تھا کہ ریاست میں ایک مضبوط اقتدار مخالف لہر ہے۔‘‘

یادو کے ذریعہ جب مضبوط اقتدار مخالف لہر کی وجوہات کے بارے میں پوچھا گیا تو واسو نے اس کی وجہ مہنگائی اور بدعنوانی کو قرار دیا۔ ساتھ ہی کہا کہ بدعنوانی تو تمام مسائل کو زیر کر دیتا ہے۔ پچھلے 6 سالوں میں ریاست پر حکومت کرنے والے وزرائے اعلیٰ میں (جن میں سدارامیا، کمارسوامی اور یدی ورپا شامل ہیں) بومئی کو ’سب سے بدعنوان'‘ قرار دیا گیا تھا۔


سروے میں سبھی پارٹیوں کے اراکین اسمبلی کے خلاف لہر کی بھی جانچ پڑتال کی گئی اور برآمد نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ اراکین اسمبلی کے مقابلے ریاستی قیادت کے خلاف لہر زیادہ شدید ہے۔ ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ ’کیا موجودہ اراکین اسمبلی کو دوسرا موقع دیا جانا چاہئے؟‘ اس کے جواب پر نظر ڈالا جائے تو کانگریس اراکین اسمبلی کے لیے 58 فیصد مثبت، بی جے پی اراکین اسمبلی کے لیے 42 فیصد مثبت اور اور جنتا دل (ایس) اراکین اسمبلی کے لئے 49 فیصد مثبت ہے۔

واسو نے بتایا کہ ووٹرز سے ایک بہت ہی دلچسپ سوال یہ کیا گیا کہ بومئی حکومت میں کسی ایک اسکیم کا نام بتائیں جس سے انھیں فائدہ ہوا تھا۔ 41,169 نمونوں میں سے صرف 12 سرکاری اسکیم کا نام دے سکے، جبکہ بہت سے لوگوں نے مودی حکومت کے شروع کیے گئے پروگراموں کو یاد کیا۔


اس تصور کے برعکس کہ ہر سیاسی جماعت کا ایک مخصوص برادری پر قبضہ ہے، سروے کے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ کوئی بھی برادری مکمل طور پر کسی پارٹی کے ساتھ نہیں ہے۔ تقریباً 28 فیصد لنگایت برادری کا کانگریس کو، 53 فیصد بی جے پی کو ووٹ دینے کی توقع ہے، جب کہ جنتا دل (ایس) کو 12 فیصد کا ووٹ ملے گا۔ اہندا ووٹ اب بھی کانگریس کے پاس بڑی تعداد میں ہیں۔ کروبا برادری کے ووٹوں میں کانگریس کا 51 فیصد، بی جے پی کا 26 فیصد پر قبضہ ہو سکتا ہے۔ مسلم ووٹوں کا کانگریس کی طرف بہت زیادہ جھکاؤ ہونے کا امکان ہے اور اس طبقہ کے 73 فیصد نے پارٹی کو ووٹ دینے کی بات کہی ہے اور جنتا دل (ایس) و بی جے پی کو مسلم طبقہ کا 10-10 فیصد ووٹ مل سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔