غالب کی برسی پرخاص: ’تجھے ہم ولی سمجھتے ،جو نہ بادہ خوار ہوتا‘

غالب نے لفظوں سے کھیل کر تخیلاتی تصویریں بنائیں اور خالص اردو لغت کا سہارا لیا۔ ان کی انفرادیت اور عظمت اتنے پہلوؤں میں جلوہ گر ہوئی کہ اس کا احاطہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔

مرزا غالب / تصویر بشکریہ ڈان ڈاٹ کام
مرزا غالب / تصویر بشکریہ ڈان ڈاٹ کام
user

قومی آوازبیورو

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے/ کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ غالب کا انداز بیان سب سے جدا ہے۔ غالب مشکل ترین موضوعات کو انتہائی سادگی اور سلاست کے ساتھ بیان کر نے کا جادو رکھتے تھے۔

کسی نے کہا ہے کہ مغلوں نے برصغیر کو تین تحفے یعنی اُردو، غالبؔ اور تاج محل دیئے ہیں۔ کہا کسی نے بھی ہو لیکن مغلوں کے یہ ایسےتحفے ہیں جن کا متبادل نہیں ہے۔ مرزا اسدا للہ خان، جن کا تخلص غالب ہے، وہ 15 فروری 1869ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اس فلسفی شاعر کو دنیا سے رخصت ہوئے 152 سال ہو گئے ہیں لیکن جو شہرت اس فلسفی شاعر کو حاصل ہوئی وہ کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہ ہوسکی۔

غالب جب پانچ سال کے تھے تو ان کے والد مرزا عبداللہ بیگ میدان جنگ میں گولی کا نشانہ بنے اور وفات پا گئے۔ یعنی صرف پانچ سال کی عمر میں والد کے سائے سے محروم ہو گئے۔ چچا نصراللہ بیگ جو آگرہ کے گورنر بنے، انہوں نے مرزا کی کفالت کی۔ لیکن تین سال بعد ہی، یعنی جب مرزا آٹھ برس کے تھے تو وہ بھی دنیا سے کوچ کر گئے۔

چچا نے گھر پر اسد اللہ کی تعلیم و تربیت کا بند وبست کر دیا تھا ۔ فارسی اور عربی کے استاد مقرر کر دیئے تھے۔فارسی کے استاد کا تعلق ایران سے تھا لہذا استاد کی صحبت نے مرزا کے مذہبی عقائد پر بھی اثر ڈالا ۔ غالب کے چچا نے بغیر لڑے آگرہ کا قلعہ انگریز لارڈ لیک کے حوالے کر دیا تھا جس کے بدلے میں انگریزوں نے انہیں نوازا تھا ۔ مرزا کے چچا کے انتقال کے بعد چچا کے سالے نواب احمد بخش خان والی لو ہارو نے غالب کے لئے انگریزوں کی پنشن جاری کروائی جس سے مرزا کی گزر بسر ہو نے لگی۔

1810 میں جب مرزا کی عمر تیرہ سال کی ہوئی تو ان کی شادی کر دی گئی۔ شادی کے بعد غالب دہلی منتقل ہو گئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ شادی کے بعد مرزا چاندنی چوک کے بلی ماران محلے میں ایک حویلی کرائے پر لے کر رہنے لگے۔ شروع میں اسد تخلص رکھا پھر اسی نام کے ایک اور شاعر منظر پرآئےتو تخلص بدل کر غالب رکھ لیا۔ غالب نے آگرہ میں کچھ وقت اپنے سسر کے ساتھ بھی گزارا جن سے غالب کی شاعری کے رجحان کو جلا ملی ۔سسر کے مشورے پر تخلص بدلا اور شراب نوشی کی لت بھی سسر سے پڑی جو کہ تاعمر نہ چھوٹ سکی۔


ایک زمانہ وہ تھا جب غالب کو پریشانیوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا کیونکہ دلی منتقل ہونے کے بعد اخراجا ت بڑھ گئے تھے۔ دو مستقل نوکر کام کاج کی غرض سے گھر میں رکھے ہوۓ تھے۔ روزگار کا کوئی سلسلہ نہ تھا۔ ایک پنشن کا سہارا تھا وہ بھی کچھ وجوہات کی بنا پر ملنا بند ہو گئی تھی۔ اب قر ضہ چڑ ھنے لگا مالی حالات بد تر ہو نے لگے اور اسی دوران ان کے یہاں بچے کی پیدائش ہو ئی جس نے چند سانسیں ہی لیں ۔ غالب نے ان حالات کو یوں بیان کیا ہے۔

مشکلیں مجھ پہ پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

غالب کی ایک عجیب عادت تھی۔ غالب دن بھر شعر لکھتے اور رات بھر شراب پیتے۔ وہ شعر کہتے جاتے اور رومال پر گرہ لگاتے جاتے، پھر شراب پیتے پیتے سو جاتے۔ اور ایسا کمال کا حافظہ پایا تھا کہ صبح بیدار ہونے کے بعد گرہ کھولتے جاتے مصرعے لکھتے جاتے۔ دیوان مکمل کر کے کتابت کروایا اور آگرہ بھیجا تو ہر ناشر نے چھاپنے سے انکار کردیا اور یہ وقت بہت سخت تھا غالب کے لئے۔

اس کے بعد غالب نے لفظوں سے کھیل کر تخیلاتی تصویریں بنائیں اور خالص اردو لغت کا سہارا لیا۔ ان کی انفرادیت اور عظمت اتنے پہلوؤں میں جلوہ گر ہوئی کہ اس کا احاطہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ ایک حقیقت یہ ہے کہ غالب آسمان کی تلاش میں ضرور نکلے لیکن زمین نے انہیں خود سے جدا نہ کیا۔ لیجئے غالب کی بہت معروف غزل پیش ہے۔

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا!

اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا

کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو

یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا

غم اگر چہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے

غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟شب غم بری بلا ہے

مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟

نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

یہ مسائلِ تصّوف یہ ترا بیان غالبؔ

تجھے ہم ولی سمجھتے ،جو نہ بادہ خوار ہوتا

غالب کی زندگی ٹیڑ ھی لکیر نظر آتی ہے ۔غالب نے حالات و مصائب کا مقابلہ جواںمر دی سے کیا او ر وہ ہموار دائرہ کو چھوڑ کر پیچیدہ پگڈنڈی پر چلنے کے عادی تھے اور یہ ہی انداز انہوں نے شاعری میں بھی اپنایا۔

کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں

ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں

میری آواز گر نہیں آتی

داغِ دل گر نظر نہیں آتا

بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی

غالب کے کئی رنگ ہیں اور سوال کر کے ذہنوں کو جھنجھوڑنا ان کا ایک منفرد رنگ ہے۔

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا

نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا

ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا پر یاد آتا ہے

وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

۔۔۔

غالب نے اپنے جزبات اور احساسات سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ، اسی لئے انہوں نے لکھا کہ

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔