گمنام مجاہد آزادی ’شیر علی خاں آفریدی‘، 152ویں یوم شہادت کے موقع پر خصوصی پیشکش

شیر علی خاں کو 11 مارچ 1872ء کو بمقام وائپر جزیرہ پھانسی پر چڑھایا گیا تو انھوں نے بہ آواز بلند انگریزی حکام سے کہا کہ ’’گناہگار ہم بھی ہیں گناہگار تم بھی ہو، فیصلہ اگلی دنیا میں خدا کرے گا۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>شیر علی خاں آفریدی</p></div>

شیر علی خاں آفریدی

user

شاہد صدیقی علیگ

اگر تاریخ ہند کی جدوجہد آزادی کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ بات خود بخود عیاں ہو جائے گی کہ شیر علی خاں سے بڑا انقلابی ارض ہند میں پیدا نہیں ہوا۔ ایسا اس لیے کیونکہ انھوں نے وائسرائے لارڈ میو کو اس کے عہدے پر رہتے ہوئے ابدی نیند سلا دیا تھا۔ وائسرائے کا قتل ایک ایسی واردات تھی جس نے برٹش انڈیا کے وجود کو ہی متزلزل کر کے رکھ دیا تھا۔ مگر شومی قسمت شیر علی خاں کو عہد غلامی میں انگریزوں نے اور مابعد آزادی ابنائے وطن نے شجر ممنوعہ سمجھا۔

شیر علی خاں آفریدی جب ایک قتل کے سلسلے میں کالے پانی کی سزا کاٹ رہے تھے، اس وقت انڈمان کی اوپن جیل ملک کے دیگر انقلابیوں سے گل گلزار تھی، جن کی نشستیں مسلسل ہوا کرتی تھیں۔ یہ حریت پسند ایسی طلسماتی شخصیات کے پیکر تھے کہ جو بھی ان کے حلقہ اثر میں آتا، ان کی اطاعت کرنا اپنا فریضہ سمجھنے لگتا۔ لہٰذا ان عظیم سورماﺅں کے انقلابی جذبات اور تصورات کا اثر شیر علی پر پڑنا لازم تھا۔ الغرض مجاہدین آزادی کی صحبتوں سے شیر علی کا نصب العین ہی بدل گیا۔ اسی اثنا میں اسے گھر سے ایک خط موصول ہوا جس میں مسٹر نارمن چیف جسٹس کلکتہ ہائی کورٹ کے قاتل عبداللہ پنجابی کو تختہ دار پر چڑھانے کا تذکرہ تھا، جسے پڑھ کر شیر علی خاں کی رگوں میں آزادی کا طوفان موجیں مارنے لگا جس کی تکمیل کے لیے اس نے کسی یورپی اعلیٰ افسر کو قتل کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ یہ وائسرائے کے سانحہ کی شکل میں منظر عام پر آیا۔


شیر علی کے حسن اخلاق اور چال چلن کو دیکھتے ہوئے جیل حکام نے اس کو ٹکٹ چھٹّی قیدی کا درجہ دے دیا، جس سے اسے بنا روک ٹوک جزیروں میں آمد و رفت کی سہولت فراہم ہو گئی۔ اسی بیچ لارڈ میو نے میجر جنرل سر ڈونالڈ اسٹوارٹ کو انڈمان و نکوبار کے چیف کمشنر کے عہدے پر فائز کیا۔ کمشنر نے ان سے انڈمان کا دورہ کرنے کے لیے بارہا مخلصانہ درخواست کی تو وائسرائے نے اپنے دیگر کاموں کو التوا میں ڈال انڈمان جانے کا فیصلہ کیا اور ان کا عملہ 8 فروری کو پورٹ بلیر پر لنگر انداز ہوا۔ چیف کمشنر نے ان کی حفاظت کے پیش نظر ایسے سخت حفاظتی اقدام کیے کہ کوئی پرندہ بھی پر نہ مار سکے، مگر موت کا وقت متعین ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بدل نہیں سکتا۔ اُدھر وائسرائے کا والہانہ خیر مقدم کیا جا رہا تھا۔ اِدھر شیرعلی خاں کے دل میں آزادی کا لاوا ابل رہا تھا۔ اس نے سبزی کاٹنے والی چھری کو پتھر پر مزید تیز کیا اور اپنے شکار کا ایک بھوکے شیر کی مانند انتظار کرنے لگا۔

جب وائسرائے کا دورہ طے شدہ وقت سے پہلے پورا ہو گیا تو انہوں نے ہوپ ٹاﺅن میں واقع ماﺅنٹ ہریٹ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی، لیکن ذاتی سکریٹری میجر او. ٹی. برنی اور کمشنر اسٹوارٹ نے غیر وقت ہونے کے سبب ان سے التجا کی کہ وہ آج وہا ں نہ جائیں بلکہ اگلے روز سیر کریں، مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ وائسرائے نے اس حسین وادی میں تقریباً پندرہ منٹ گزارے۔ جب وائسرائے واپسی کے لیے پہاڑی سے اترے تو فضا تاریکی کی بسیط چادر اوڑھ چکی تھی، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شیر علی خاں نے نگاہ بچتے ہی اپنے شکار کو دبوچ لیا۔ جب تک ان کا محافظ عملہ حرکت میں آتا تب تک شیر علی خاں اپنا کام انجام دے چکا تھا۔ لیکن اس نے بھاگنے کی کوئی جسارت نہیں کی، لہٰذا انگریزی سپاہ نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔ کچھ لمحات کے بعد وائسرائے نے آخری سانس لیں۔ مقدمہ کی سماعت کمشنر اسٹوارٹ نے اگلے روز جنگی جہاز گلاسکو پر شروع کی۔


برطانوی حاکموں کو یقین نہیں تھا کہ شیر علی تن تنہا اس واردات کو انجام دے سکتا ہے، بلکہ ان کے خیال میں اس کے پیچھے کوئی گہری سازش کارفرما ہے۔ انگریز حکام نے شیر علی سے بازپرس کی کہ اس نے اتنا بڑا کام کس کے اشارے پر کیا اور اس سازش میں کون کون افراد اس کے معاون تھے۔ جذبہ آزادی کے نشہ سے سرشار اس مرد آہن نے شیر کی طرح گرجتے ہوئے کہا:

’’میں نے خدا کے حکم سے کیا ہے، خدا میرا شریک ہے۔‘‘

حسب توقع شیر علی کو سزائے موت سنا دی گئی، جس پر عمل آوری کرتے ہوئے شیر علی کو 11 مارچ 1872ء کو بمقام وائپر جزیرہ پھانسی پر چڑھایا تو انھوں نے بہ آواز بلند انگریزی حکام سے کہا کہ:

’’گناہگار ہم بھی ہیں گناہگار تم بھی ہو، فیصلہ اگلی دنیا میں خدا کرے گا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔