بابری مسجد کی شہادت اور موجودہ حالات پر صبا خالد، عائشہ رحمن اور پروین طلحہ کا فکر انگیز تجزیہ

6 دسمبر 1992 کو جب بابری مسجد شہید کی گئی تو صبا خالد 10 سال کی تھیں اور عائشہ رحمن 9 سال کی، پروین طلحہ پختہ ذہن ضرور تھیں کیونکہ 1969 میں وہ انڈین سول سروس کا امتحان پاس کر چکی تھیں۔

<div class="paragraphs"><p>بابری مسجد کی فائل تصویر / آئی اے این ایس</p></div>

بابری مسجد کی فائل تصویر / آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

بیتوا شرما

صبا خالد نے حال ہی میں چھوٹا سا ایکسپورٹ کا کام شروع کیا ہے۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو ان کے دادا دوردرشن پر شام کو آنے والے نیوز بلیٹن کو دیکھنا نہیں بھولتے تھے اور اس دوران گھر میں کسی بھی قسم کا شور یا آواز کرنے پر پابندی تھی۔

صبا اس وقت تقریباً 10 سال کی تھیں، جب 6 دسمبر 1992 کو خبروں میں بتایا گیا کہ ایودھیا میں بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا ہے۔ اس خبر کے بعد جو خاموشی اور سناٹا چھایا تھا، وہ دادا کی ڈانٹ کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ ایک قسم کے خوف کا تھا۔ اس وقت وہ ایک ہندو اکثریتی علاقے میں واحد مسلم کنبہ کی شکل میں رہتی تھیں۔ ان کے دادا نے سب کو ہدایت دی کہ گھر سے کوئی نہیں نکلے گا، سب گھر میں دُبکے رہیں گے۔


صبا خالد بتاتی ہیں کہ ’’میری دادی تو صدمے میں چلی گئی تھیں۔ آج بھی یہ سب بتاتے ہوئے میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ خبریں آ رہی تھیں کہ لوگ مارے جا رہے ہیں، ٹرینوں کو آگ لگائی جا رہی ہے۔ ہم اپنی زندگی میں اتنے خوفزدہ کبھی نہیں ہوئے تھے، لیکن اب دہشت حاوی ہوتی جا رہی تھی۔ میں اس وقت کے احساس کو بیاں نہیں کر سکتی۔‘‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’’شکر ہے کہ ہمارے آس پاس رہنے والے ہندو سخت گیر نہیں تھے، لیکن اس دن کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ پہلی بار مجھے ان میں اور خود میں فرق صاف دکھائی دینے لگا تھا۔‘‘

صبا کا بچپن تھا، سو وہ اس سب کے مذہبی اور سیاسی اہمیت کو نہیں سمجھتی تھیں کہ 16ویں صدی میں بنی ایک مسجد کو منہدم کیے جانے کا کیا مطلب ہے۔ وہ نہیں سمجھتی تھیں کہ جو ہندو دایاں محاذ کہتے ہیں کہ مسجد کو بھگوان رام کی جنم بھومی پر بنایا گیا ہے یا پھر تقسیم کے بعد ملک میں ہندو-مسلم اتحاد کا یہ سب سے سیاہ باب تھا۔ وہ اسی کشمکش میں تھی کہ آخر لوگ ایک پرانی مسجد کے نام پر ایک دوسرے کو مار کیوں رہے ہیں؟ بالغ ہونے کے بعد ہی انھیں یہ سمجھ میں آیا کہ دراصل ایک ہی مذہب کو ماننے والے ایک جیسی ذہنیت کے لوگوں کا یہ اپنی بالادستی قائم کرنے کا طریقہ تھا۔ وہ بتاتی ہیں ’’مجھے کافی بعد میں یہ سب سمجھ آیا، لیکن اس کا مجھ پر گہرا اثر پڑا۔ یہ ایک پرانی عمارت تھی، اس کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری تھی نہ کہ اسے منہدم کرنے کی۔ اسے سیاست کے لیے یا لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر بانٹنے کے لیے استعمال کرنے کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا ہم اپنے بچوں کو یہی سب سکھائیں گے؟‘‘


صبا اب دو بچوں کی ماں ہیں۔ اس بات کو 30 سال سے زیادہ وقت گزر چکا ہے۔ وہ اب بھی ایک ہندو-مسلم کی ملی جلی آبادی والے علاقے میں رہتی ہیں۔ صبا بتاتی ہیں کہ کچھ دن پہلے چار لوگ ایودھیا میں رام مندر تعمیر کے لیے بھجن گاتے ہوئے چندہ مانگ رہے تھے۔ میرے گھر کے دروازے پر قرآن کی آیتیں لکھی ہوئی ہیں، پھر بھی انھوں نے چندہ کے لیے میرا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جب ان کے شوہر نے کہا کہ آخر وہ کیوں چندہ دیں، تو وہ چلے گئے۔

صبا نے بتایا کہ ’’وہ ایک گیت لگاتار بجا رہے تھے ’رام کو جو لائے ہیں، ہم ان کو لائیں گے‘... پورا گیت تو یاد نہیں ہے، لیکن بہت ہی بھیانک قسم کا گیت تھا۔ انھوں نے لوگوں کے دماغوں میں زہر بھر دیا ہے، لوگ ایک دوسرے کے اس طرح دشمن بن گئے ہیں کہ انھیں صحیح اور غلط کا فرق ہی سمجھ نہیں آتا ہے۔‘‘ صبا خالد یاد کرتی ہیں کہ انھوں نے یہ گیت پہلے بھی سنا ہے۔ ایک بار جب وہ اپنے دونوں بیٹوں (12 اور 18 سال) کے ساتھ اجمیر جا رہی تھیں۔ پینٹری میں کام کرنے والا ایک لڑکا لگاتار اسے اپنے موبائل فون پر بجا رہا تھا۔


ایودھیا میں 22 جنوری کو ہونے والی پران پرتشٹھا تقریب سے پہلے وہاں سے 700 کلومیٹر دور دہلی کی سڑکوں پر بھی بھگوا جھنڈے لہرانے لگے ہیں۔ لوگوں نے اپنے گھروں، دکانوں، کالونیوں اور عوامی مقامات پر ایسے جھنڈے لگا دیے ہیں۔ ان میں دہلی کی مشہور خان مارکیٹ بھی شامل ہے، جو مجاہد آزادی خان عبدالجبار خان کے نام پر ہے۔ خان عبدالجبار خان نے اپنے بھائی خان عبدالغفار خان کے ساتھ آزادی کی لڑائی میں حصہ لیا تھا اور مذہبی بنیاد پر تقسیم ہند کی مخالفت کی تھی۔ خان عبدالغفار خان کو سرحدی گاندھی بھی کہا جاتا ہے۔ اب ایسی باتیں ہو رہی ہیں کہ ہندو دایاں محاذ کے لوگ اس مارکیٹ کا نام ’شری رام مارکیٹ‘ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

آر ایس ایس کارکنان گھر گھر جا کر رام مندر تقریب کے پرچے تقسیم کر رہے ہیں، اسٹیکر لگا رہے ہیں اور لوگوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ 22 جنوری کو اپنے قریبی مندروں میں پوجا کریں، رام بھجن گائیں، دعائی اجلاس کریں، 108 بار رام منتر کا ورد کریں، ایودھیا میں رام للا کی پران پرتشٹھا تقریب کو بڑے اسکرین پر دکھائیں، گھروں میں دیے جلائیں وغیرہ وغیرہ۔ رام مندر افتتاح کو لے کر جہاں ایک طرف جشن جیسا ماحول تیار کر دیا گیا ہے، اسی دوران ہم نے کچھ مسلموں سے بات کی کہ آخر اس عوامی جشن کو وہ کس طرح دیکھتے ہیں اور ملک میں بی جے پی کے 10 سال کی حکومت کے دوران ہندو اکثریت کا زور اور مسلم مخالف جذبات جو امنڈ رہے ہیں اس پر ان کی کیا رائے ہے۔ بہت سے لوگوں کا جواب ہے کہ اس سب نے ملک کو بدل دیا ہے۔ ہم نے جتنے لوگوں سے بات کی ان میں سے کافی لوگوں نے کہا کہ انھوں نے طے کیا ہے کہ خاموش رہیں گے، گھروں کے اندر ہی رہیں گے۔ اس دوران سفر کرنے سے بچنا ہے کیونکہ کیا پتہ کہاں کب کون سی انہونی ہو جائے۔ ویسے تو ان لوگوں نے گزشتہ تقریباً 10 سال سے خوف اور بے عزتی بھرے ماحول میں جینا سیکھ لیا ہے، لیکن دوستوں، میڈیا اور یہاں تک کہ عام لوگوں کے رویے اور روخ میں جو تبدیلی آئی ہے، وہ زیادہ خوفناک ہے۔ کسی بھی تنقید کے تئیں حکومت کے عدم برداشت نے اپنے غم و غصے کو ظاہر کرنا اور مشکل بنا دیا ہے، جس سے مایوسی لگاتار بڑھتی جا رہی ہے۔


صبا خالد کہتی ہیں کہ ’’اگر کسی کو تکلیف پہنچا کر جشن منایا جا رہا ہے تو صاف ہے کہ سماج میں بہت کچھ ٹوٹ چکا ہے۔ ہم امیدیں چھوڑ چکے ہیں، اور اپنے ہی ملک میں ٹھگا ہوا سا محسوس کر رہے ہیں۔ ہمارے ساتھ تو دوسرے درجہ کے شہری سے بھی بدتر سلوک کیا جا رہا ہے۔‘‘ صبا آگے کہتی ہیں ’’صحافت اپنی اخلاقیات کب کی چھوڑ چکی ہے۔ عدلیہ بھی اس سے پاک نہیں رہی ہے۔ غلط صحیح کا فرق ختم ہو گیا ہے۔ ہم کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟ ایک ناانصافی ہوئی تھی، لیکن انصاف کے لیے کس کے پاس جائیں؟ اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ ہماری بات سنی تک نہیں جا رہی ہے۔ ہماری بولنے کی آزادی ختم ہو چکی ہے۔ کہاں بچی ہے جمہوریت؟‘‘

سپریم کورٹ کے ذریعہ مندر کی تعمیر کو منظوری دینے کے چار سال بعد اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ قومی سطح پر نشر ایک تقریب میں اس کی بنیاد رکھنے کے تین سال بعد عام انتخاب سے کچھ مہینے قبل 22 جنوری کو ایک عظیم الشان تقریب میں مندر کا افتتاح کیا جا رہا ہے، بھلے ہی اس کی تعمیر کا عمل 2026 تک انجام پائے گا۔ وزیر اعظم، جو ایودھیا سے 200 کلومیٹر جنوب میں وارانسی سے رکن پارلیمنٹ ہیں، وہاں بھی ہندو رائٹ وِنگ مزید ایک مسجد کو ہٹانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ وزیر اعظم نے 11 دن کے اُپواس کا اعلان کیا ہے، اور میڈیا اسے بھی بڑے پیمانے پر مشتہر کر رہی ہے۔ رام مندر کی تعمیر کے لیے متنازعہ زمین سونپتے وقت سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے کہا تھا کہ ہزاروں کارسیکوں یا ہندو سویم سیوکوں کے ذریعہ مسجد کو منہدم کرنے سے متنازعہ جگہ پر ’حسب سابق حالات‘ رکھنے کے 1991 کے احکامات کی خلاف ورزی ہوئی تھی، یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی اور اس سے ’نظامِ قانون کی شدید خلاف ورزی‘ ہوئی تھی۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ نہ تو بی جے پی اور یوپی کے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کی ریاستی حکومت، نہ ہی کانگریس پارٹی اور وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کی مرکزی حکومت نے کارسیوکوں کو روکا۔


ستمبر 2019 میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے ایک سال بعد اور بابری مسجد انہدام کے 28 سال بعد مرکزی جانچ بیورو (سی بی آئی) کی ایک خصوصی عدالت نے بابری مسجد انہدام معاملے میں بی جے پی کے چار سینئر لیڈروں کو بھی بری کر دیا۔ ان میں اُس وقت کے بی جے پی صدر لال کرشن اڈوانی بھی ہیں، جنھوں نے 1990 میں گجرات سے یوپی تک رتھ یاترا نکالی تھی اور جنھوں نے مبینہ طور پر 1992 میں مسجد منہدم کرنے کے لیے بھیڑ کو اکسایا تھا۔ اب وہ 96 سال کے ہیں اور اپنی ہی پارٹی کے ذریعہ حاشیے پر دھکیلے جا چکے ہیں۔

چار اہم ہندو مٹھوں کے سربراہان (شنکراچاریوں) نے اس بات پر اعتراض ظاہر کیا ہے کہ مندر میں پران پرتشٹھا کو سیاسی شو بنا کر ہندو مذہبی صحیفوں اور ہندو رسوم کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ لیکن اس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ مندر کے افتتاح سے کچھ ہفتے پہلے مودی نے ایودھیا میں ایک نئے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا افتتاح کیا۔ انڈیگو ایئرلائن کی پائلٹ ٹیم نے مودی کی آبائی ریاست گجرات کے احمد آباد سے ایودھیا کے لیے اپنی پہلی پرواز میں ہندو دیوتاؤں کی پوشاک پہن رکھی تھی۔ دہلی سے ایودھیا جا رہے طیارہ کے پائلٹ نے ’جئے شری رام‘ کہہ کر پرواز بھری اور مسافروں نے بھی ’منتروچار‘ کیا، یعنی منتر پڑھے۔


عائشہ رحمن ایک وکیل ہیں۔ وہ 9 سال کی تھیں جب بابری مسجد منہدم کی گئی تھی اور فسادات کی خبر ان تک پہنچی۔ تب وہ اپنی بہن اور ماں کے ساتھ ایودھیا سے 250 کلومیٹر جنوب میں 1.5 لاکھ لوگوں کے شہر غازی پور میں رہتی تھیں۔ وہ سبھی ایک چھوٹی سی چہار دیواری کے ساتھ گراؤنڈ فلور پر رہتے تھے۔ ان کے والد سعودی عرب میں کام کرتے تھے، اس لیے وہ اپنا گھر چھوڑ کر پہلی منزل پر رہنے والے اپنے چچا کے گھر چلی گئی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں ’’مجھے یاد ہے کہ میری ماں بہت ڈری ہوئی تھیں، حالانکہ خود کو بے خوف دکھانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ خواتین بے عزتی کے بارے میں بات کر رہی تھیں، یہ لفظ انھوں نے ’بلاتکار‘ کے لیے استعمال کیا تھا۔ تب مجھے نہیں پتہ تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے، لیکن میں اتنا سمجھ گئی تھی کہ یہ کچھ ایسا تھا جو صرف خواتین کے ساتھ ہوتا تھا۔‘‘ پھر عائشہ کہتی ہیں ’’مجھے سب کچھ یاد ہے، کہ لوگ ایک کٹر (سخت گیر) لیڈر کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ وہ اڈوانی تھے۔‘‘

صبا خالد کی طرح عائشہ کو بھی یہ سمجھنے میں کافی وقت لگا کہ 6 دسمبر 1992 کو کیا ہوا تھا۔ اب جبکہ مندر تعمیر ہو رہا ہے، وہ بھی سرکاری طور پر، اور جس طرح کا جشن منایا جا رہا ہے اس سے وہ اندر ہی اندر کافی پریشان ہیں۔ عائشہ کا کنبہ اور ان کے جاننے والے دیگر مسلم کنبے خوفزدہ ہیں۔ بھلے ہی وہ ایک وکیل ہیں، جس نے یوپی کی عدالتوں میں حقوق انسانی کے کئی معاملے لڑے ہیں، لیکن وہ کچھ بھی نہیں کہہ سکتیں یا کر سکتی ہیں، جس سے ان کی مایوسی بڑھ گئی ہے۔ عائشہ کہتی ہیں کہ ’’میرے گھر پر لوگ کہتے ہیں باہر یا عوامی مقامات پر مت جانا۔ کسی کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کچھ مت بولنا۔ اگر وہ جئے شری رام کہتے ہیں، تو مڑ کر نمستے بول دینا۔ یہ بہت دردناک اور برداشت سے باہر ہے، لیکن ہمیں یہ قبول کرنا ہوگا کہ ہم دوئم درجے کے شہری ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں ’’ہم صرف آپ سے یا کنبہ کے اراکین اور سماج کے کچھ قریبی دوستوں پر ہی اپنا غصہ ظاہر کر سکتے ہیں۔ اگر آپ عوامی طور پر بولیں گے تو آپ جیل جانے یا پیٹے جانے کا خطرہ مول لیتے ہیں۔‘‘


ہم نے پروین طلحہ سے پوچھا کہ اگست 2020 میں جس دن مودی نے مندر کی ’آدھارشلا‘ (بنیاد) رکھی تھی، اس دن دوردرشن کے براہ راست نشریہ کو دیکھ کر انھیں کیسا لگا تھا، تو پدم شری اعزاز یافتہ سابق آئی اے ایس کہتی ہیں ’’یہ ویسا ہی تھا جیسا کہ دوردرشن نے کانگریس حکومت میں 1986 میں بابری مسجد کے تالے کھولنے کے دوران کی اتھا۔‘‘ 1969 میں ہندوستانی سول سروس میں شامل ہونے والی پہلی مسلم خاتون طلحہ، جو یو پی ایس سی کے رکن کی شکل میں سبکدوش ہوئیں، انھوں نے اس دن کی دوردرشن کی خبروں کو یاد کرتے ہوئے ان الفاظ کو دہرایا جو تب کہے گئے تھے، یعنی ’’آج مندر کے دروازے کھول دیے گئے ہیں اور لوگ بہت جوش کے ساتھ پوجا کر رہے ہیں۔‘‘

جس دن اکتوبر 1990 میں بہار میں لالو پرساد یادو کی حکومت کے ذریعہ اڈوانی کو گرفتار کیے جانے کے بعد بھی کارسیوک ایودھیا پہنچ گئے تھے، اس دن جب طلحہ شام کو گھر پہنچیں تو انھیں کسی پڑوسی کے ذریعہ بھیجے گئے چار لڈو ملے۔ لیکن انھیں کبھی پتہ نہیں چلا کہ لڈو آخر کس پڑوسی نے بھیجے تھے۔ دسمبر 1992 میں جس دن بابری مسجد شہید کی گئی، طلحہ کسی ظہرانہ میں گئی تھیں، جسے ایک مسلم نواب نے دیا تھا۔ ظہرانہ کے دوران ہی وہاں موجود دو سابق ہندو مہاراجاؤں نے خوشی سے اعلان کیا تھا ’توڑ دی گئی، پوری طرح گرا دی گئی، سپاٹ کر دیا گیا...‘۔ طلحہ کہتی ہیں ’’مجھے اس وقت تو بہت زیادہ کچھ نہیں لگا، کیونکہ میں مذہبی طور پر بہت زیادہ بیدار نہیں ہوں۔ لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا، خاص طور سے ممبئی میں جو کچھ ہوا، اس نے مجھے ہلا دیا تھا۔ صاف ہو گیا تھا کہ اب آگے کی راہ آسان نہیں ہوگی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں ’’تب جشن تو تھا، لیکن اتنا کھلاپن نہیں تھا۔ اب لوگ کھل کر کہتے ہیں کہ لکھنؤ کے قریب ہے ایودھیا، جاؤ دیکھ کر آؤ... بہت شاندار مندر بنا ہے، لیکن اس سے زیادہ آئین مخالف کچھ ہو سکتا ہے کیا، اور یقیناً اس سے زیادہ بربریت بھرا کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘


پروین طلحہ کا کہنا ہے کہ وہ اس عمر کو پار کر چکی ہیں جب مذہبی شناخت کی بنیاد پر ان کے ساتھ کچھ ہوتا، لیکن گزشتہ ایک دہائی میں جو کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں، وہ بھیانک ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’آج مجھے اپنے بچپن کے سب سے اچھے دوست کے سامنے بھی دو بار سوچنے کے بعد بولنا پڑتا ہے۔ ہر کوئی بدل گیا ہے۔ میرے دوست، میرے ہم درس... واٹس ایپ گروپ دیکھیے کہ اس میں کیا چل رہا ہے۔ کچھ بھی، کبھی بھی پہلے جیسا نہیں ہے۔‘‘

صبا خالد کا بھی اپنے ایک قریبی دوست سے جھگڑا ہو گیا، کیونکہ انھوں نے حکومت کے بارے میں کچھ تنقیدی لکھ دیا تھا۔ انھیں اس بری طرح، فحش طریقے سے ٹرول کیا گیا کہ انھوں نے سوشل میڈیا ہی چھوڑ دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں نے کچھ بھی پوسٹ کرنا چھوڑ دیا ہے، کیونکہ میں اپنی ذہنی صحت کو برباد نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ صبا نے اپنے دونوں بیٹوں کو بابری مسجد کے بارے میں اس لیے نہیں بتایا کیونکہ وہ چھوٹے ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ ان کے دل میں کوئی خوف یا غصہ نہ رہے۔ لیکن پھر بھی باہری دنیا سے کیسے دور رہ سکتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بیٹوں کے اسکول میں ہونے والی ہر تقریب اب تقریباً مذہبی ہے۔ عام طور پر رادھا، کرشن اور رام جیسے ہندو دیوتاؤں کا جشن منایا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’ہر وقت یہ مذہب، مذہب، مذہب۔ یہ ذہنی بیماری ہے۔ اور بھی چیزیں ہیں، اسکاٹش رقص، ماحولیات، پانی بچانے کی مہم ہے... لیکن اس پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔‘‘

(مضمون نگار بیتوا شرما ’آرٹیکل 14‘ کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔