انقلابی شہید پیر علی خاں... یوم شہادت پر خصوصی پیش کش

شہید پیر علی خان
شہید پیر علی خان
user

شاہد صدیقی علیگ

1857ء کی پہلی ملک گیر جنگ آزادی کا تاریخ ہندمیں ایک اہم مقام ہے، لیکن اس تحریک کے ہراول دستے میں شامل بیشتر ہیروز کی حیات وکارناموں کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا، ان کے ساتھ دورخی برتائو ہوا یا پھر انہیں یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ ایسے ہی گمنام قومی ہیرو شہید پیر علی خاں بھی ہیں جنہوں نے ملک کو برطانوی آہنی پنجو ں سے چھڑانے کے لیے اپنی قیمتی جان نثار کردی، لیکن ستم بالائے ستم ان کی قربانی تو کجا ان کے نا م سے بھی عوام واقف نہیں ہے۔

قابل ذکر امر ہے کہ سز اسنانے کے بعد ٹیلر انگریز افسروں کے سا تھ پیر علی خاں کو اپنے کمرے میں لے گیاتو وہ اس وقت زنجیروں میں جکڑے اور خون سے لتھ پتھ تھے۔ ان کے کپڑے پھٹے اور خون سے چپکے ہوئے تھے، چہرے پر چو ٹ کے نشان تھے مگر کسی طر ح کی بے چینی یا ندامت نہیں تھی۔ باز پرس کے دوران جب عظیم فرزند وطن پیر علی خاں کی آواز اولاد کے نام سے بھراگئی تو یہ کیفیت دیکھ کر ٹیلر نے ان سے اپنے ساتھیوں کا نام بتا کر اپنی سزا معاف اور رہائی کا راستہ صاف کرنے کا لالچ دیاجسے سن کر عظیم مجاہد ’پیر علی خاں کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا ،انہوں نے برجستہ جو جواب دیا اسے سن کر ٹیلر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔

انقلابی شہید پیر علی خاں... یوم شہادت پر خصوصی پیش کش

’’زندگی میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب جان بچانے کی تمنا ہوتی ہے لیکن کچھ ایسے لمحے بھی ہوتے ہیںجن میں جان قربان کرناہی سب سے بڑی نیکی اور خواہش ہوتی ہے، یہ لمحہ ان ہی میں سے ایک ہے کہ جب موت کو گلے لگانا ابدی زندگی پانا ہے..........تم مجھے پھانسی دے سکتے ہو لیکن ہمارے اصولوں کو نہیں مار سکتے میں اگر مر بھی گیا تو میرے خون سے ہزاروں ایسے پیدا ہوں گے جو تمہاری حکومت کو برباد کردیں گے۔‘‘

شہید پیر علی خاں 1820ء میں محمد پو ر ضلع اعظم گڈ ھ میںپیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مہر علی خاں تھا، انہوں نے تلاش معاش کی خاطر ہجرت کرکے پٹنہ کے گرہٹہ محلہ میں سکونت اختیار کی، جہاں ان کی سرپرستی شہرکے نامور زمیندار میر عبداللہ نے کی ،جن کے تعاون سے انہوں نے چھوٹا سا کتب خانہ کھول لیا جس کا شمار چند دنوں میں ہی انقلابی مرکز میں ہونے لگا کیونکہ انقلابی روش پر چلنے کے بعد پیرعلی خاں نے لوگوں کو انقلابی ادب بھی مہیا کرانا شروع کردیا تھا مگر وہاں کتابیں تو کم فروخت ہوتی تھیں مگر آزادی کے تانے بانے زیادہ بنے جاتے تھے۔ پٹنہ کے حریت پسندوں نے پیر علی خاں کی رہبری میں ایک انقلابی تنظیم قائم کی جس کی ما لی مدد پٹنہ کے ریئس لطف علی نے کی۔ اس کی میٹنگیں رات میں ہوتی تھیں۔ پیر علی خاں معہ ارکان گھوم گھوم کر لوگوں کو آزادی کی معنویت اور جدوجہد میں حصہ لینے کے لیے مشتعل کرتے تھے، وہ کانپور، داناپور، جگدیش پور، مظفر پور، جہاں آباد، لکھنؤ، کانپور، دہلی وغیرہ کے باغیوں سے خفیہ رابطہ قائم کئے ہوئے تھے۔ ولیم ٹیلر کو مخبروں سے پیر علی خاں کی تمام سرگر میوں کا سراغ مل چکا تھا اس لیے وہ ولیم ٹیلر کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگے۔


پٹنہ کا کمشنر ولیم ٹیلر بڑا بے رحم اور دوراندیش افسر تھا حالات کے مدنظر اس نے اپنے جاسوسوںکا جال پھیلادیا، ان سے جو خبریں موصول ہورہی تھیں اس نے کمشنر کے ماتھے پر بل ڈالنے شروع کردئیے کہ ہندوستانی سپاہ بغاوت کرنے کے لیے موقع ووقت کے انتظار میں بیٹھی ہے اورگردوپیش کے زمیندار بھی انگریزی راج کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ 12 جون کو ولیم ٹیلر نے اپنے تمام افسران کو فاضل پولس بھرتی کرنے کاحکم دیا اسی دن سکھوں کو بغاوت پر آمادہ کرنے کے الزام میں نجیب (قطب الدین) کو حراست میںلیا گیا۔انقلابیوں کی خفیہ نشستیں دیر رات منعقد ہونے کے سبب ان کو تو پکڑنا ناممکن تھا لہٰذا اس نے تحریک کے پے پس پردہ تین محرک وہابی مولوی شان محمد حسین، احمد اللہ اور واعظ الحق کو گرفتار کرنے کا منصوبہ تیار کیا، چنانچہ انہیں اورچند معزز ریئسو ں کو موجودہ صورتحال پرتبادلہ خیال کے بہانے سے18 جون کو اپنی کوٹھی چھجو باغ میں مد عو کیا، عیار ٹیلر نے رسمی گفت وشنیدکے بعد سب عمائدین کو تو رخصت کر دیا لیکن ان معزز ہستیوں کو روک کر و ہیں نظر بند کر لیا۔ ٹیلر نے 20 جون 1857ء کو پٹنہ میں ایک سال کے لیے مارشل لا نافذ کر دیا اور داناپور کی چھاؤنی میں شہریان کی نقل وحمل بھی پابندی لگا دی۔ ان گرفتاریوں اور باشندوں کے اسلحہ جمع کرانے سے انگریزوں کو کچھ سکون میسر ہوا، مگر یہ سخت اقدام حریت پسندوںکے منصوبوں پر بھی بجلی گرنے کے مترادف تھے۔ 30 جون کوکمشنر نے اپنے ماتحت افسران کو حکم دیا جو باغی گاؤں گاؤں گھوم رہے ہیں انہیں فوراً پکڑیں اورسزا دیں۔ کمشنرکی آمریت کی بنا پرپورا شہر اندرہی اندر سلگ رہا تھا۔ تاہم آفریں عوام سرکاری احکام کی پابندی کے بجا ئے جام شہادت نوش کرنے کے زیاد ہ متمنی ہوگئے کیونکہ انہیں مادر ہند کی آزادی اپنی جان سے زیادہ عزیز تھی، اب تک انقلابی گروہ نے دانا پور کے باغی سپاہیوں کے تعاون کی امید میں معر کہ آرائی کو ملتوی کررکھا تھا لیکن حالات اتنی تیزی سے بدلے کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ لہٰذا پیرعلی خاں کی سربراہی میں پٹنہ کے سورماؤں نے 3 جولائی 1857ء کوشام آٹھ بجے رستم گلی سے نکل کر گلزار باغ میں واقع کمپنی کی انتظامی عمارت کو محصور کرلیا۔ اس واقعہ کے بارے میں جیسے ہی ٹیلر نے سنا تو اس نے فوراً انقلابیوں کی سرکوبی کے لیے ریڑے کی کمان میں 150 سکھوں بھیجا لیکن ریڑے کے دستے کو پٹنہ کے کفن بردار جگر پاروں سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، ان کے ہاتھوں ڈاکٹر لائل مارا گیا۔ یہ ایسا کاری زخم تھا جس کی بازگشت انگلینڈ کے ایوانوں تک محسوس کی گئی۔ ڈاکٹر لائل کے قتل نے ٹیلر کو پاگل کردیا، اس نے جوش انتقام میں باشندوں کے ساتھ شہر کی بھی اینٹ سے اینٹ بجانے کا فیصلہ کرلیا۔ حکام نے اگلی صبح سے بڑے پیمانے پرخانہ تلاشی اور دار و گیر کا سلسلہ شروع کیا۔ 31 انقلابی، جن میں5 جولائی کی شام کو زخمی پیر علی (رانی پور گاؤں)، رئیس لطف علی اور ان کا وفادار خادم شیخ گھسیٹا بھی شامل تھا۔ ظلم وستم، قتل وغارت گری اوربربریت کا ایسا ننگا ناچ ہوا کہ انسانیت بھی کانپ اٹھی۔ پیر علی خاں کے گھر سے پانچ بندوقیں، کچھ دوسرے ہتھیار اور خفیہ دستاویز برآمد ہوئے جن سے انقلابیوں کی پوری تحریک کا پردہ فاش ہوگیا۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ پیر علی کے گھر میں 12 ملازم رہتے تھے جہاں ہتھیار بھی جمع کئے جاتے تھے، اکثران کے گھر بیرونی انقلابیوں کی بھی آمد و رفت رہتی تھی۔ انگریز افسر ڈاکٹر لائل کے قتل اور شورش کی پاداش میں 43 اشخاص حراست میں لیے گئے، جن کا کیس کسی عدالت میں نہیں بلکہ ٹیلر کے خود ساختہ کمیشن کے سامنے پیش کیا گیا جس میں ٹیلر اور پٹنہ کے مجسٹریٹ مسٹرلوئس شامل تھے۔ 7 جولائی کو ولیم ٹیلر اور دوسرے مجسٹریٹوں کی موجودگی میں جب سنوائی شروع ہوئی تو طے شدہ ڈرامہ محض تین گھنٹے چلا۔ ڈاکٹر لائل کے قتل کے جرم میں پیر علی کے علاوہ 18 دیگر کو سزائے موت، پانچ کو عمرقید، دو کو چودہ سال کی سزا، تیرہ کو دس سال قید بامشقت اور ایک کو سزا ئے تازیانہ اورتین کورہا کیا گیا۔ پیر علی خان اور ان کے ساتھیوں سے انگریز اتنے خوفزدہ ہو گئے تھے کہ آناً فاناً میں گرفتاری کے دو دن کے اندر ہی انہیں پٹنہ کے گاندھی پارک کے متصل سرعام پھانسی دے دی گئی۔ پیر علی خاں اوران کے ساتھیوں نے جو قربانیاں پیش کیں وہ جنگ آزادی میں سنگ میل ثابت ہوئیں اوراس نے کم و بیش ایک صدی تک چلنے والی تحریک جدوجہد کے شعلوں کو کبھی ٹھنڈا نہیں پڑنے دیا۔

اے وطن جب بھی سر دشت کوئی پھول کھلا

دیکھ کر تیرے شہیدوں کی نشانی رویا

(جعفر طاہر)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔