ای وی ایم کی شفافیت پر سوالات برقرار

الیکشن کمیشن بار بار لوگوں سے کہتا ہے کہ وہ مان لیں کہ ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ نہیں ہو سکتی۔ تاہم، وہ اسے حقائق کی بنیاد پر ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اس صورتحال میں، شکوک و شبہات برقرار رہتے ہیں

ای وی ایم کی علامتی تصویر
ای وی ایم کی علامتی تصویر
user

اے جے پربل

نئی دہلی کے جنتر منتر پر 31 جنوری کو ہزاروں مظاہرین جمع ہوئے تھے۔ ان کی یہ مانگ تھی کہ انتخابات بیلٹ پیپر کے ذریعے کروائے جائیں۔ لیکن حسب معمول انتخابی کمیشن پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا اور اس نے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کی حمایت میں اپنی مہم کو مزید تیز کر دیا۔ تاہم، اس معاملے میں سوالات اٹھائے جانے کے بعد الیکشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ پر یہ معلومات فراہم کیں کہ کنٹرول یونٹ 'ماسٹر' (مالک) ہے اور وی وی پیٹ 'سلیو' (غلام) ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) میں کوئی خرابی نہیں ہے، اس نے حکومت کی 'وِکسیت بھارت یاترا' کے ساتھ نامعلوم تعداد میں مشینیں بھیج دیں۔

ای وی ایم ایک مشین نہیں ہے بلکہ تین مشینوں کا مجموعہ ہے، یعنی بیلٹ یونٹ (بی یو)، وی وی پی اے ٹی (ووٹر تصدیق شدہ پیپر ٹریل) یونٹ اور ایک کنٹرول یونٹ (سی یو) اور وہ مل کر ایک نظام بناتے ہیں۔ بی یو وہ مشین ہے جس پر ووٹرز اپنی پسند کے امیدوار اور نشان کے سامنے بٹن دباتے ہیں۔ 2019 کے بعد سے EVM VVPAT یونٹ سے منسلک ہے جو بی یو سے سگنل وصول کرتا ہے اور ووٹ شدہ نشان کو پرنٹ کرتا ہے۔ یہ سات سیکنڈ تک نظر آتا ہے تاکہ ووٹرز تصدیق کر سکیں کہ صحیح آپشن درج کیا گیا ہے۔ سگنل پھر کنٹرول یونٹ (CU) تک جاتا ہے جو گنتی کے لیے ووٹوں کو ریکارڈ کرتا ہے۔


الیکشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ سگنل BU سے CU تک سفر کرتا ہے اور یہ CU ہی ہے جو VVPAT یونٹ کو سگنل پہنچاتا ہے۔ تاہم ووٹرز کے پاس ابھی تک تصدیق کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ CU نے کیا ریکارڈ کیا ہے۔ کیا CU میں چپ یا مائکرو پروسیسر کے لیے VVPAT کو سگنل بھیجنا ممکن ہے جبکہ  گنتی کے لیے الگ سگنل ریکارڈ کیا جائے؟ ووٹر کے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ کیا CU اور VVPAT یونٹس کو اس طرح سے پروگرام کیا جا سکتا ہے کہ ہر تیسرا یا پانچواں ووٹ کسی خاص پارٹی کے حق میں درج ہو؟ کیا CU میں ہیرا پھیری ممکن ہے؟

اعتماد کسی بھی انتخاب کا مرکز ہوتا ہے۔ ووٹر کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا ووٹ خفیہ ہے اور اسے ریکارڈ کیا گیا ہے اور اسے ڈالے گئے ووٹ کے طور پر شمار کیا جائے گا۔ ووٹر کو بھی ماہرین اور حکام کی مدد کے بغیر خود عمل کی درستگی کی تصدیق کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ جرمنی کی سپریم کورٹ نے 2019 میں ہی فیصلہ دیا تھا کہ جب تک اس آخری شرط کو پورا نہیں کیا جاتا، ای وی ایم کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر ووٹر کو کسی وجہ سے شک ہو تو وہ 'کسی اتھارٹی سے مشورہ کیے بغیر' اپنا ووٹ منسوخ کر سکتا ہے۔


ہندوستان میں قانون کے تحت ووٹر VVPAT کے بارے میں شکایت نہیں کر سکتے۔ اگر شکایت کی جاتی ہے تو اسے ثابت کرنا ووٹر کی ذمہ داری ہے اور الزام ثابت نہ ہونے پر 5000 روپے جرمانہ عائد کیا جاتا ہے، حالانکہ ووٹر کے پاس یہ ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ اس نے ای وی ایم پر کون سا بٹن دبایا، کون سا نشان اور VVPAT نے اسے کیا دکھایا؟ تنازعات کے حل کے طریقہ کار کی پیچیدگی کی وجہ سے شکایات عام طور پر نہیں کی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جو ای وی ایم پر شکوک و شبہات ظاہر کر رہے ہیں۔ دہلی میں وکلاء کے ایک گروپ نے مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں گزشتہ اسمبلی انتخابات کے بعد ای وی ایم کے خلاف مہم شروع کی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کئی حلقوں میں ووٹوں کی گنتی اور ڈالے گئے ووٹوں کے اعداد و شمار میں تضاد ہے۔ انہوں نے جیت کے فرق کو ظاہر کرنے کے لیے اعداد و شمار کا حوالہ دیا اور الزام لگایا کہ ای وی ایم میں ہیرا پھیری کی گئی۔

سپریم کورٹ کے وکلاء کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ 2024 کے عام انتخابات بیلٹ کے ذریعے ہونے چاہئیں۔ بھانو پرتاپ سنگھ، نریندر مشرا اور محمود پراچا نے مطالبہ کیا، 'قانون یہی کہتا ہے اور الیکشن کمیشن کو بیلٹ پیپرز کی گنتی کرنی چاہیے اور اسے ای وی ایم کی گنتی کے ساتھ جوڑنا چاہیے۔‘ انھوں نے کہا کہ کمیشن پہلے ہی VVPAT سلپس چھاپ رہا ہے۔ پھر ان کی گنتی اور انہیں ای وی ایم سے ملانے میں کیا حرج ہے؟ سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن نے وقت کی کمی کی بنیاد پر اس مطالبے کی مخالفت کی تھی اور دلیل دی تھی کہ اس عمل میں پانچ سے چھ دن لگ سکتے ہیں۔ وکلاء کا کہنا ہے کہ یہ دلیل غلط ہے کیونکہ پہلے کاغذی بیلٹس کی گنتی میں ڈیڑھ دن لگتے تھے۔ ماہرین نے کہا کہ 1000 ووٹرز والے ہر پولنگ سٹیشن میں صرف 10 ووٹوں کی ہیر پھیر سے ایک فیصد کا فرق ہو سکتا ہے اور یہ ووٹر لسٹ میں بے ضابطگیوں سے بھی بڑا خطرہ ہے۔


بیلٹ پیپر کے نظام کو ترک کرنے کی سب سے بڑی وجہ سیاسی کارکنوں اور یہاں تک کہ پولنگ اہلکاروں کی طرف سے بیلٹ بکسوں کو بھرنا تھا۔ لیکن ای وی ایم بھی اس کو روکنے کی ضمانت نہیں ہے۔ پھر ووٹنگ کے آخری گھنٹے میں ووٹوں میں اچانک اضافہ اور کمیشن کی جانب سے ووٹنگ کے 12 گھنٹے بعد ووٹنگ فیصد پر نظرثانی نے بھی عدم اعتماد کو بڑھا دیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔