زلزلے: ترکی و شام میں اب بھی لاکھوں بے گھر

گزشتہ سال ترکی اور شام کے 2 زلزلوں میں 50 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوگئےتھے۔ ترک حکومت نے 3 لاکھ سے زائد نئے گھر دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اب تک صرف 46 ہزار گھر ہی مہیا کیے گئے ہیں

<div class="paragraphs"><p>ترکی اور شام میں زلزلوں کی فائل فوٹو</p></div>

ترکی اور شام میں زلزلوں کی فائل فوٹو

user

مدیحہ فصیح

گزشتہ سال 6 فروری کو 7.8 اور 7.5 کی شدت کے زلزلوں نے جنوب مشرقی ترکی اور شمال مغربی شام کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جس میں 50 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک، لاکھوں بے گھر اور اندازاً 34 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ ان زلزلوں کے بعد ترک صدر رجب طیب اردگان نے فروری 2024 تک 3 لاکھ 19 ہزار نئے گھر دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وزارت ماحولیات اور شہری کاری کے مطابق جنوری 2024 تک صرف 46 ہزار گھر ہی فراہم کیے گئے ہیں ۔

ذرائع ابلاغ میں شائع رپورٹس کے مطابق ترکی کے تین لاکھ کی آبادی والے جنوب مشرقی شہر ادیامان میں مرنے والوں کی تعداد 8 ہزار سے زیادہ تھی جب کہ 17.5 ہزار کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ ترکی میں زخمی ہونے والے تقریباً  ایک لاکھ افراد میں سے 70 فیصد یا تقریباً 70 ہزار افراد معذور ہیں۔ زلزلہ زدگان کے لیے زندگی کافی مشکل ہے اور معذوری کے بعد یہ اور بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ قطر کے خبر رساں ادارہ الجزیرہ نے تباہ کن زلزلوں کے ایک سال بعد ترکی اور شام کے متاثرہ علاقوں کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق حال ہی میں جب 41 سالہ ایڈیل یٹکن اپنے بچے کو اسکول میں داخلہ دلانے گئیں تو ان کی مصنوعی ٹانگ الگ ہو گئی ۔ اب انہیں کہیں بھی جانے سے ڈر لگتا ہے۔ وہ زیادہ تر اپنے آپ کو دو کمروں کے کنٹینر تک محدود رکھتی ہیں جس میں وہ اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ ادیامان میں رہتی ہیں۔ زلزلوں میں اس شہر کی تقریباً 70 فیصد عمارتیں تباہ ہو گئی تھیں اور سڑکوں سمیت بنیادی ڈھانچے کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا تھا۔


زلزلے کے مرکز سے صرف 68 کلومیٹر دور گازیانٹیپ میں، زلزلے نے گھروں اور عمارتوں کے ساتھ ساتھ بہت سے نوجوان جوڑوں کے خواب بھی چکنا چور کر دیے جو ایک ساتھ اپنا مستقبل شروع کرنے والے تھے۔ زلزلے سے متاثرہ 10 صوبوں میں ہنگامی حالت کے اعلان کے بعد شادیوں کی تقریبات معطل کر دی گئی تھیں۔ لیکن زلزلے کے ایک سال بعد شادیاں اداسی کو دور کر رہی ہیں۔ دلہن کی دکانوں سے آراستہ ایک خوبصورت ضلع غازی محتر پاسا بلیوارڈ ہے، جہاں ایک سال بعد کافی گہما گہمی ہے اور فٹ پاتھ ملبے اور ٹوٹے ہوئے کھڑکیوں کے شیشوں سے صاف ہیں۔ دکانیں کھلی ہوئی ہیں اور سڑکوں پر دلہنیں شادی کے لباس کی تلاش میں مصروف ہیں۔

گازیانٹیپ  اناطولیہ کے بڑے اور امیر شہروں میں سے ایک ہے اور پڑوسی ملک شام میں تنازعہ کے آغاز سے ہی بہت سے شامی مہاجرین یہاں آباد ہو چکے ہیں۔ کچھ لوگوں نے عربی بولنے والی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہاں کاروبار شروع کیے، جیسے کہ 36 سالہ ریم مسری، جو 2013 میں شام میں اپنے آبائی شہر حلب سے ترکی کے شہر غازیانتپ منتقل ہوگئیں۔

ترکی میں آنے والے تباہ کن زلزلوں کے ایک سال بعد الجزیرہ نے ادیامان میں ایک بے گھر خاندان سے ملاقات کی جب وہ محبت، نقصان اور ایک غیر یقینی مستقبل کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ احمد فرات نے گزشتہ سال کے زلزلوں کی یادیں شیئر کیں جن کے بارے میں وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے سنیں لیکن یہ ان کے ذہن پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں۔ 6 فروری 2023 کی صبح 7.8 شدت کے زلزلے کے بعد، احمد، اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ بیسنی میں اپنے تباہ شدہ گھر سے 50 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ادیامان پہنچے جہاں ان کے زیادہ تر رشتہ دار رہتے تھے۔ لیکن یہ شہر منہدم اور خستہ حال عمارتوں میں تبدیل ہو چکا تھا اور 7.5 شدت کے دوسرے زلزلے نے اس تباہی  کو مزید خوفناک بنا دیا۔ اگلے10 دنوں میں احمد نے 12 رشتہ داروں کی باقیات کو کھود کر نکالا۔ صوبہ ادیامان میں آنے والے زلزلوں میں 8 ہزار سے زیادہ افراد کے ہلاک ہونے کا اندازہ ہے۔ گزشتہ فروری میں جب الجزیرہ نے اس 40 سالہ پلمبر اور تعمیراتی کارکن اور اس کے اہل خانہ سے پہلی بار ملاقات کی تھی تو انہوں نے اپنے آخری مردے کو دفن کیا تھا۔ ایک سال بعد احمد، اس کی بیوی اور بچے اب بیسنی کے کنارے ایک کنٹینر میں رہتے ہیں۔ اس بستی میں تقریباً 1,200 لوگ 300 کنٹینرز میں رہتے ہیں۔ ترکی کی ڈیزاسٹر ایجنسی اے ایف اے ڈی کے مطابق ترکی کے تیس لاکھ بے گھر افراد میں سے احمد  ان 689,101 افراد میں شامل ہیں جو اس وقت ترکی کے ڈیزاسٹر زون کے 407 کنٹینر شہروں میں مقیم ہیں۔


دیگر کئی خاندانوں کو احمد سے بھی بڑا نقصان ہوا ہے، وہ سخت مصائب اور نفسیاتی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ اکثر اس دن کے بارے میں سوچتے ہیں جب وہ ایک کمرے میں سمٹے ہوئے تھے اور عمارت لرز رہی تھی ۔ گھر کی باہر کی دیواریں گر گئی تھیں اور زلزلے کے بعد کے دن موت، خوف اور تکلیف سے بھرے تھے۔ نفسیاتی امداد کے اداروں نے ان کی مدد کی لیکن یہ ان کی ذمہ داریاں تھیں جنہوں نے بالآخر انہیں مہینوں کی مایوسی سے باہر نکالا۔ ایک غیر سرکاری ادارے (این جی او) حیات دستک (Hayata Destek) نے حال ہی میں اطلاع دی ہے کہ ادیامان میں کچھ بے گھر افراد اب بھی آلودہ پانی سے خطرے میں ہیں اور یہ کہ کنٹینرز میں رہنے والے بارش اور سردی کا شکار ہیں۔ انہوں نے یہ بھی پایا کہ بہت سے پناہ گزین تباہ شدہ عمارتوں یا عارضی خیموں میں رہ رہے ہیں اور بچے تعلیم تک رسائی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

اسی طرح شام کے شمال مغربی علاقوں پر بھی ان زلزلوں نے اپنا نشان چھوڑا ہے ۔ شامی شہری دفاع  (سیریئن سول ڈیفنس) کے مطابق شمال مغربی علاقہ شام میں باغیوں کے زیر قبضہ آخری گڑھ ہونے کی وجہ سے قدرتی آفت سے پہلے ہی منقطع ہو چکا تھا اور اس علاقہ  کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ زلزلے سے وہاں 2,172 افراد ہلاک اور 2,950 سے زیادہ زخمی ہوئے۔

ایک سال بعد، الجزیرہ نے ان لوگوں سے بات کی جن سے وہ پچھلے سال ملے تھے، یہ دیکھنے کے لیے کہ ایک سال بعدان کی زندگیوں میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ اطاریب شہر میں محمود العمری نے زلزلے میں اپنی بیوی اور چھ میں سے چار بچوں کو کھو دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ’ آج تک، میری بیوی اور بچوں کی تصویر نے مجھے کبھی نہیں چھوڑا‘۔ وہ اب بھی وقتاً فوقتاً آنے والے آفٹر شاکس سے ڈرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ، العمری کو کام کرنا اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنا مشکل ہوتا گیا ، لہٰذا انہوں نے ایک ایسے ساتھی کو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا جو ان کے بچوں کی دیکھ بھال کر سکے ۔

شامی شہری دفاع کے مطابق، حلب کے دیہی علاقوں میں زلزلے سے سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں، جن میں 513 سے زیادہ اموات اور 813 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ جنديرس میں سماہر رشید کا گھر گر گیاتھا۔ ان کے بچے جب بھی سوتے ہیں زلزلوں سے ڈرتے ہیں۔ ان کے لیے پچھلا سال خوفناک رہا ۔ اب وہ شام اور ترکی کی سرحد کے قریب ایک کیمپ میں رہتے ہیں ۔


زلزلے میں مکان گرنے،  اپنے بڑے بیٹے کو کھونے اور ٹانگ ٹوٹنے کے بعد مفیدہ غنیم نے اپنے 17 سالہ بیٹے علی کے ساتھ چھ ماہ کیمپ میں گزارے۔ اب ان کے پاس ایک گھر ہے۔ 41 سالہ بیوہ سات سال قبل اپنے شوہر سے محروم ہو گئی تھیں۔ گزشتہ سال آنے والے زلزلے کے بعد، وہ اپنے بچوں کے لیے ماں اور باپ دونوں ہونے کا عزم کر چکی تھیں۔ مفیدہ نے کہا، ’اللہ سے بہت امید ہے کہ وہ مجھے مایوس نہیں کرے گا اور آنے والے دن بہتر ہوں گے‘۔

ادلب کے شمالی دیہی علاقوں میں، دریائے اورونٹس کے دامن میں، الحمزیہ گاؤں واقع ہے جو کبھی اپنی سرسبز، زرخیز زمینوں کے لیے جانا جاتا تھا۔ لیکن اب سورج غروب ہونے پر، یہ گاؤں ایک پناہ گزین کیمپ میں بدل جاتا ہے۔ زلزلے کے اثرات یہاں کے گھروں کی دیواروں میں اب بھی نمایاں ہیں۔ لوگ اپنے گھر کے اندر سونے سے بھی خوفزدہ ہیں اور  ہر گھر کے باہرایک خیمہ ہے ۔ بہت سے لوگ دن اپنے گھروں میں گزارتے ہیں اور آفٹر شاکس کے خوف سے رات باہر خیموں میں ۔

یاسمین مستو، ان کے شوہر خالد، 10 بچے اور ان کی ساس سب ایک رستے ہوئے خیمے میں سو رہے ہیں اور ان کے گھر میں بارش کا پانی مسلسل ٹپک رہا ہے، جو زلزلے میں جزوی طور پر منہدم ہو گیا تھا۔ ان کا گھر اب رہنے کے قابل نہیں رہا ۔ یاسمین اور ان کے شوہر زرعی مزدور ہیں، لیکن جب دریا میں سیلاب آیا تو بہت سے کھیت پانی میں ڈوب گئے اور کام ملنا بہت مشکل ہو گیا۔ الحمزیہ کی گلیاں نقصان اور مسلسل خوف کی کہانیوں سے بھری پڑی ہیں۔ عبدالکریم النساء اور ان کے خاندان کی کہانی یاسمین سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے ۔ وہ اپنے گھر میں بھی دن گزارتے ہیں، جس کی دیواروں میں دراڑیں پڑی ہوئی ہیں اور وہ قریب ہی ایک خیمے میں سوتے ہیں۔


اقوام متحدہ کے 2023 کے اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ شام کے شمال مغرب میں رہائش پذیر 45 لاکھ میں سے تقریباً 21 لاکھ لوگوں کو پناہ گاہ کی ضرورت ہے، جن میں 17 لاکھ غیر رسمی کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ 8 لاکھ خیموں میں مقیم ہیں، جن میں سے 90 فیصد بوڑھے افرادہیں۔ شمال مغرب علاقے میں، 148 قصبوں اور شہروں کو زلزلے سے نقصان پہنچا۔ ان میں سے بیشتر شمالی حلب کے دیہی علاقوں میں عفرین اور ادلب کے دیہی علاقوں میں حرم میں ہیں، جہاں الحمزیہ واقع ہے۔ واضح رہے کہ زلزلے نے 10 ہزار 6 سو عمارتوں کو نقصان پہنچایا، 53 ہزار خاندان بے گھر ہوئے، اور اس قدرتی آفت کے دو ماہ بعد شائع ہوئے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 8 لاکھ 55 ہزار لوگوں کے گھروں کو دوبارہ رہائش کے قابل بنانے کے لیے مرمت کی ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔