امام خمینیؒ اور انقلاب اسلامی کی معنویت

خدا کا وعدہ ہے کہ جو لوگ ظالم اور بدعنوان حکومت کے خلاف قیام کرتے ہیں اور اپنے ایمان میں ثابت قدم ہوتے ہیں ، خدا ان کو اصلاح کے راستہ کی طرف لے جاتا ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر نواب علی اختر</p></div>

تصویر نواب علی اختر

user

نواب علی اختر

پوری تاریخ انسانی گواہ ہے کہ جب جب ظلم اور استحصال کے خلاف عوام نے آواز اٹھائی ہے، اس نے ایک عظیم تحریک اور انقلاب کی صورت اختیار کی اور مفاد پرست اور جابر تخت نشینوں کو نیست ونابود کر دیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مجموعی عوام کی حمایت سے وقوع پذیر ہونے والے انقلابات اور تحریکیں کبھی ناکام نہیں ہوئیں اور اپنے منزل مقصود کو پہنچی ہیں جس کے بعد ایک نیا ماحول رونما ہوا اور نئے حکمرانوں نے ماضی سے سبق لیتے ہوئے عوامی رائے کا احترام کیا ہے۔ انقلاب معاشرے کے اندر ایک ایسی تبدیلی کا نام ہے جو یکسر نظام کو تبدیل کر دے جس میں سیاسی نظام کی تبدیلی سب سے اہم ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ معیشت کی بہتری بھی سب سے اہم ہے کیونکہ معیشت سے معاشرے کے ہر فرد کو دلچسپی ہوتی ہے۔

جب بھی تاریخ میں پیش آنے والے انقلابات کی بات ہوتی ہے تو اس میں انقلاب نبوی کا پہلے ذکر ہوتا ہے کیونکہ اس سے بڑا انقلاب آج تک نا آیا ہے اور نہ ہی ممکن ہے، اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں بلکہ یہ تاریخی حقائق ہیں جسے کوئی بھی تاریخ داں مسترد نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یہ وہ واحد انقلاب ہے جس میں سیاست، معیشت، ریاست کا مذہب، قانون، نظام تعلیم اور بہت ساری تبدیلیاں ایک ساتھ آئیں۔ اس کے علاوہ تاریخ میں آنے والے انقلاب اسلامی ایران، چینی انقلاب، فرانسیسی انقلاب اور روسی انقلاب کو کون بھول سکتا ہے۔ ان سب نے معاشرے پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں اور یہ تمام کے تمام بڑی تبدیلیاں لے کر آئے جن میں مثبت اور منفی دونوں پہلو شامل ہیں۔


انقلاب نبوی کے بعد انقلاب اسلامی کا ذکر کیا جاتا ہے جو امام راحل آیت اللہ روح اللہ خمینیؒ نے انقلاب نبوی کے نہج پرایران میں انقلاب برپا کیا۔ اسلامی انقلاب اس وقت آیا جب معنویت کے فقدان کے دور میں انسان مادہ اور مادیات کا اسیر تھا اور انسانی تشخص مسخ ہوتا جا رہا تھا ،دین اور معنویت کی گفتگو اور بازگشت ایک معجزہ الٰہی سے شباہت رکھتی تھی۔ ایسے مادی عصر میں جب عالمی رائے عامہ کی اکثریت سیاست سے دین کی جدائی کا عقیدہ رکھتی تھی اور مادی ترقی کو اپنی بہشت موعود تصور کر رہی تھی ایسے دور میں اسلامی انقلاب نے بندگی خدا، انسانی ارتقاء اور معنویت و دین کو محور قرار دے کر عالم وجود میں قدم رکھا اور دنیا کے ایک گوشے میں اسی بنیاد پر قائم ایک حکومت کی داغ بیل ڈال دی۔ اس نے احکام اسلامی کے نفاذ، شریعت کی پاسبانی اور انسانی ساز مکتب کو اپنا واقعی نصب العین قرار دیا۔

ہر انقلاب اور سماجی تحریک کی ایک خصوصیت اس کا عوام پر بھروسہ کرنا ہے۔ جس قدر عوام کی شرکت وسیع ہوتی ہے اسی قدر انقلاب و تحریک کو قوی اور مستحکم تصور کیا جاتا ہے۔ ایران کا اسلامی انقلاب عوام کی ایک ایک فرد سے تعلق رکھا تھا۔ اس میں عوام کی وسیع شرکت بے نظیر تھی جس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے انقلاب میں نظر نہیں آتی۔ اس میں سماج کے سارے افراد ہر قسم کے ذاتی مفاد اور ذاتی سلیقہ سے بالاتر ہو کر اسلام پسندی کے پرچم تلے شہنشاہی نظام کے خلاف با شکوہ وکم نظیر اجتماع کئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انقلاب کے دوام رکن ایمان اور عوام کا یکجا ہونا یہ صرف امام خمینیؒ کی قیادت کا مرہون منت تھا۔ وہ قائد و رہبر جس نے تدبیر ودانش ، افعال و اطوار کو الٰہی سیرت کی بدولت عوام کو ایمان و اتحاد اور الٰہی محرکات کا حامل ہونے کے راستہ پر گامزن کیا۔


ظلم کی چکی میں پسنے والی تمام اقوام میں بہت کم ہی قومیں ایسی ہیں جو انقلاب کی ہمت کر پاتی ہیں۔ جو قومیں اٹھ کھڑی ہوتی ہیں اور انقلاب برپا کر دیتی ہیں ان میں بھی بہت کم قومیں نظر آتی ہیں جو اپنے مشن کو پورا کر سکی ہوں اور حکومت تبدیل کرنے کے علاوہ انقلابی اہداف و مقاصد کی پاسداری میں بھی کامیاب رہی ہوں۔ اس حوالے سے ملت ایران کا پرشکوہ انقلاب جو عصر حاضر کا سب سے بڑا اور سب سے عوامی انقلاب شمار ہوتا ہے، واحد ایسا انقلاب ہے جو اپنے اعلی اہداف کے سلسلے میں پرافتخار 45 سال گزار چکا ہے اور ان تمام وسوسوں کے مقابلے میں جن کی مزاحمت ناممکن معلوم ہوتی تھی، اپنے وقار اور اپنے نعروں کی اصلیت کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوا اور اب خود سازی، سماج سازی اور تمدن سازی کے دوسرے مرحلے میں وارد ہوا۔

ہر انقلاب کی کامیابی کے چند اسباب وعوامل ہوتے ہیں جیسے حکمراں جماعت کا بدکردار ہونا ، عوام کا متحد ہو کر صف آرائی کرنا اور منظم دستے تشکیل دینا ،تربیت یافتہ افراد ، نیم فوجی دستوں کی تشکیل، رہبر وقائد کا شجاع ہونا اور انقلابی شخصیتوں میں وحدت فکر و عمل ہونا وغیرہ۔ اسلامی انقلاب میں اتحاد و یکجہتی موجزن تھی، فرعی مسائل بالائے طاق رکھ دیئے گئے تھے ، گذشتہ تحریکوں کا انجام ان کے پیش نظر تھا لہٰذا تمام انقلابی عناصر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے اور معاشرہ کے تمام افراد نے متحد ہوکر اس انقلاب میں شرکت کی۔ خدا کا وعدہ ہے کہ جو لوگ ظالم اور بدعنوان حکومت کے خلاف قیام کرتے ہیں اور اپنے ایمان میں ثابت قدم ہوتے ہیں ، خدا ان کو اصلاح کے راستہ کی طرف لے جاتا ہے۔ امام خمینیؒ کی نظر میں مشیت پروردگار اور اس کی عنایت اس انقلاب کی کامیابی کا بنیادی سبب تھا۔


بلا شبہ جس ہستی نے اس انقلاب کی قیادت و رہبری کی ملکی و غیرملکی تمام تر رکاوٹوں اور مادی وسائل کی کمیوں کے باوجود پوری ملت کو اپنے گرد جمع کر کے نہ صرف اس اسلامی انقلاب کو ایران میں کامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں اسلامی حریت کا بیج چھڑک دیا ور مسلمانوں میں ایک نئی امن اور ولولہ بیداری و آگاہی کی انقلابی کیفیت پیدا کر دی یقینا یہ ہستی عالم اسلام کی ایک غیر معمولی اور استثنائی شخصیت کی حامل ہے۔ ظاہر ہے اس عظیم ہستی نے مسلمانوں کی آگاہی اور بیداری، ان کے درمیان اتحاد ویکجہتی اور ان کے امراض کی تشخیص اور علاج کے سلسلے میں بے پناہ تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کی ہیں۔ امامؒ کی تحریک کا مرکز اتحاد بین المسلمین اور صدر اسلام کی عدل نبوی کی حکومت کا قیام تھا۔

اس انقلاب کا ایک اہم ثمرہ جس کا دامن بہت وسیع ہے، مختلف شعبوں میں دوسروں پر انحصار نہ کرنا اور خود مختاری ہے۔ وہ ملک جس کا چپہ چپہ مشرق یا مغرب سے وابستہ تھا وہ کبھی بھی اپنے پیروں پرکھڑے ہونے کو سوچ بھی نہیں سکتا تھا اس نے ایسے انقلاب کی ہدایت و رہبری کی جو وابستگی کے مکمل خاتمہ کا سبب بنا اور یہ عدم وابستگی ’نہ شرقیہ نہ غربیہ، اسلامیہ اسلامیہ‘ کے نعرے میں جلوہ گر ہوئی۔ مذہبی اور قومی عناصر کے توسط جوانوں کو اپنا تشخص حاصل ہوا۔ اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران کے عسکری ،اقتصادی و صنعتی و ثقافتی امور میں ترقی ،جدید ٹیکنالوجی کا حصول ،اصیل اسلامی معیار ،دینی اصولوں پر قائم آئین کی تدوین، اسی انقلاب اسلامی کی کامیابی کے چند اہم نمونے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔