بھارت رتن یا الیکشن رتن؟

لگتا ہے کہ وزیر اعظم مودی کو خود بھی یقین نہیں ہے کہ وہ 2024 کے انتخابات میں کامیاب ہو جائیں گے، اسی لیے وہ ایسے ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں جس سے ووٹ میں اضافہ ہو اور وہ تیسری بار وزیر اعظم بن جائیں

<div class="paragraphs"><p>بھارت رتن / علامتی تصویر</p></div>

بھارت رتن / علامتی تصویر

user

سہیل انجم

سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے میڈیا مشیر سنجے بارو نے دس فروری کے اخبار انڈین ایکسپریس میں ایک مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے ’ایک سیاسی رتن‘۔ قارئین عنوان سے ہی سمجھ گئے ہوں گے کہ اس مضمون میں کیا ہوگا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے جس طرح حالیہ دنوں میں بھارت رتن تقسیم کیے ہیں اس سے سیاسی و صحافتی حلقوں میں ایک بحث چھڑ گئی ہے اور یہ بحث اس نتیجے پر جا کر ختم ہوتی ہے کہ حکومت بھارت رتن کی بارش اس لیے کر رہی ہے تاکہ ووٹوں کی بارش ہو سکے۔ سنجے بارو نے اپنے مضمون میں جو پہلا جملہ لکھا ہے وہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی دس سالہ حکومت کے آخری مہینو ں میں جس انداز میں بھارت رتن دیے ہیں اس نے ملک کے اس اعلیٰ ترین اعزاز کی قدر و قیمت گرا دی ہے۔ حالانکہ وہ پہلے وزیر اعظم نہیں ہیں جس نے اس اعزاز کو سیاسی رنگ دیا ہے لیکن الیکشن سے عین قبل ان کے اعلان نے ایک سیاسی غل غپاڑہ مچا دیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ وہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اسی لیے وہ ایسے تمام ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں جس سے ووٹ میں اضافہ ہو اور وہ تیسری بار وزیر اعظم بن جائیں۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئے تو وزیر اعظم پنڈت نہرو کے بعد وہ پہلے غیر کانگریسی وزیر اعظم ہوں گے جو یہ ریکارڈ بنائیں گے۔ حالانکہ انھوں نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں کہا کہ بی جے پی کو لوک سبھا الیکشن میں 370 نشستیں ملیں گی اور این ڈی اے چار سو سے زائد نشستیں جیتے گا۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو تنہا بی جے پی 370 سیٹوں پر اور اس کی دو درجن سے زائد حلیف پارٹیاں محض تیس سیٹوں پر کامیاب ہو ں گی۔


سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ این ڈی اے کسی بھی صورت میں چار سو کی گنتی تک نہیں پہنچ سکتا اور بی جے پی تنہا 370 تک نہیں پہنچ سکتی۔ یہ دراصل ہوا بنانے کی کوشش ہے تاکہ عوام کے ذہن میں یہ با ت بٹھائی جائے کہ بی جے پی تیسری بار بھی کامیاب ہونے جا رہی ہے لہٰذا اپنا ووٹ برباد کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ نہ تو وزیر اعظم مودی کو اس بات کا یقین ہے کہ بی جے پی تیسری بار کامیاب ہونے جا رہی ہے اور نہ ہی وزیر داخلہ امت شاہ کو یقین ہے۔ اگر یقین ہوتا تو حکومت ایک ایک ووٹ پر اپنی توجہ مبذول نہیں کرتی اور نہ ہی نئے نئے حربے اختیار کر کے نئے نئے حلیفوں کو اپنے ساتھ لانے کی کوشش نہیں کرتی۔

اگر بھارت رتن کی با ت کی جائے تو حالیہ دنوں میں جن لوگوں کو یہ اعلیٰ سویلین اعزاز دیا گیا ہے وہ ہیں کرپوری ٹھاکر، ایل کے آڈوانی، نرسمہا راؤ، چودھری چرن سنگھ اور ایم ایس سوامی ناتھن۔ اگر ان لوگوں کی سیاست اور ان کے کام پر نظر ڈالی جائے تو ان میں سے کئی ایسے ہیں جو بی جے پی اور آر ایس ایس کے نظریات کے خلاف رہے ہیں۔ جیسے کہ کرپوری ٹھاکر نے ریزرویشن کی بات کی تھی جس کی آر ایس ایس نے سخت مخالفت کی تھی اور ان کی حکومت گرا دی تھی۔ لیکن جب بی جے پی کو یہ محسوس ہوا کہ بہار میں نتیش کمار کو ساتھ لائے بغیر کامیابی نہیں مل سکتی تو ان سے ایک سمجھوتہ کیا گیا۔ ان کے ایک پرانے مطالبے یعنی کرپوری ٹھاکر کو بھارت رتن دینے کا اعلان کر دیا گیا اور نتیش کمار این ڈی اے میں شامل ہو گئے۔


چودھری چرن سنگھ کی سیاست آر ایس ایس مخالف رہی ہے۔ لیکن ان کو ا س لیے یہ اعلیٰ اعزاز دیا گیا تاکہ ان کے پوتے چودھری جینت سنگھ کو اپنے پالے میں لایا جا سکے۔ حالانکہ جینت سنگھ نے ایک بار ایک انتخابی ریلی میں ایک سوال کے جواب میں اپنی انگلیوں سے سکہ اچھالنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا میں چونی ہوں جو پلٹ جاؤں گا۔ لیکن مودی نے بالآخر اس چونی کو پلٹ دیا۔ جبکہ اس سے قبل ان کا سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو سے سات سیٹوں پر اتحاد ہو چکا تھا۔ لیکن اب انھوں نے صرف دو سیٹوں پر بی جے پی سے اتحاد کرنے کو ترجیح دے دی۔ اس کی وجہ یہی رہی کہ حکومت نے ان کے دادا کو بھارت رتن دے دیا۔

جہاں تک ایم ایس سوامی ناتھن کا سوال ہے تو انھیں کسانوں کو خاموش کرنے کے لیے بھارت رتن دیا گیا۔ لیکن انھوں نے کم سے کم سپورٹ پرائس کی جو سفارش کی تھی اس کو حکومت نے خاطر میں نہیں رکھا اور اس سفارش کو لاگو نہیں کیا۔ لیکن ان کو یہ اعلیٰ اعزاز دے دیا گیا۔ اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ احتجاج کرنے والے کسانوں کو خاموش کرایا جا سکے اور ان کے کچھ نہ کچھ ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔ نرسمہا راؤ کا جہاں تک معاملہ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مودی حکومت کانگریس کو یہ دکھانا چاہتی ہے کہ تم نے اپنے وزیر اعظم کو بھارت رتن نہیں دیا لیکن ہم نے دے دیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسی بہانے تیلنگانہ میں اپنی موجودگی درج کرائی جائے۔ بی جے پی جنوب میں کہیں نہیں ہے۔ اس طرح وہ جنوب میں بھی خود کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔


اب رہے ایل کے آڈوانی تو ان کو بھی ایک مصلحت کے تحت بھارت رتن دیا گیا ہے۔ دراصل رام مندر کی تحریک میں جو لوگ پیش پیش رہے ہیں ان میں آڈوانی سب سے آگے تھے۔ انھوں نے سومناتھ مندر سے ایودھیا تک کی رتھ یاترا نکالی تھی اور یہ رتھ یاترا جہاں جہاں سے گزری تھی بدترین فسادات ہوئے تھے جن میں سیکڑوں بے قصور مارے گئے تھے۔ لیکن جب رام مندر کا افتتاح کیا گیا تو انھیں بھی اور ان تمام لوگوں کو نظرانداز کیا گیا جو رام مندر تحریک میں پیش پیش رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے آر ایس ایس کا خیمہ ناراض تھا۔ لہٰذا ایک تو اس کی ناراضگی دور کرنے کے لیے انھیں دیا گیا اور دوسرے رام مندر کی تحریک کو سیاسی تحریک میں بدلنے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنانے میں ان کا جو کردار رہا ہے اس کا انھیں انعام دیا گیا۔

سیاسی مبصرن کا خیال ہے کہ کو حکومت کی جھولی میں اور بھی بھارت رتن ہوں گے جووقت آنے پر اور ضرورت پڑنے پر دیے جا سکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مایاوتی نے ابھی تک بی جے پی سے اتحاد نہیں کیا ہے۔ لہٰذا کانشی رام کو بھی بھارت رتن دیا جا سکتا ہے تاکہ مایاوتی بھی این ڈی اے کی چھتری تلے آجائیں۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ چونکہ ملائم سنگھ یادو کو پہلے ہی بھارت رتن دے دیا گیا ہے ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ الیکشن سے پہلے ان کو دے کر اکھلیش یادو کی زبان کو لگام لگائی جا سکتی تھی۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابھی بال ٹھاکرے بچے ہوئے ہیں۔ انھیں بھی دے کر اودھو ٹھاکرے کے لہجے کو نرم کیا جا سکتا ہے۔


ان سیاست دانوں کو بھارت رتن دینے اور نئی نئی پارٹیوں کو اپنے پالے میں لانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کے انڈیا اتحاد کو مزید کمزور کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ کانگریس کو بھی نشانہ بنایا جا سکے۔ کیونکہ اس وقت اگر کوئی پارٹی ہے جس سے حکومت پریشان ہے تو وہ کانگریس ہے۔ لہٰذا اس کے لیڈروں پر الگ الگ مواقع پر طنز کیے جاتے ہیں۔ کبھی ادھیر رنجن چودھری کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی ملکارجن کھڑگے کو اورکبھی جے رام رمیش اور دوسرے لیڈروں کو۔ حکومت کی ان کوششوں کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اس نے بھارت رتن جیسے اعلیٰ ترین اعزاز کو بدترین انداز میں سیاست زدہ کر دیا اور اس کی قدر و قیمت گرا دی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان اقدامات سے بی جے پی کو کتنا انتخابی فائدہ پہنچتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔