شردپوار کے سامنے چیلنج تو ہیں لیکن وہ بغیر لڑے ہار ماننے والے نہیں ہیں

مہاراشٹر کی سیاست میں اٹھنے والے مد وجزر میں جہاں شردپوار کی اہمیت ابھی تک ایک مضبوط ستون کی بنی ہوئی ہے تو وہیں ادھو ٹھاکرے نے بھی بی جے پی پر حملے تیز کردیئے ہیں

<div class="paragraphs"><p>شردپوار اوراجیت پوار / تصویرسوشل میڈیا</p></div>

شردپوار اوراجیت پوار / تصویرسوشل میڈیا

user

سجاتا آنندن

اجیت پوار کی مشکلیں

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کی تقسیم کے معاملے میں اسمبلی اسپیکر نے ابھی تک اپنا فیصلہ نہیں دیا ہے۔ اس سے قبل ہی الیکشن کمیشن نے جس طرح اجیت پوار کی قیادت والی این سی پی کو ’حقیقی‘ قرار دیا ہے، اس سے کھیل کا پہلا راؤنڈ یقینی طور پر اجیت کے حق میں گیا ہے۔ راجیہ سبھا سیٹ کے انتخاب کے لیے کمیشن نے بنیادی پارٹی کو اس کا تجویز کردہ نام ’نیشنلسٹ کانگریس پارٹی - شرد چندر پوار‘ الاٹ کر دیا ہے۔ لیکن اجیت پوار کی قیادت والی این سی پی اس سے خوش نہیں ہے۔ دراصل شرد پوار کا نام کافی اہمیت رکھتا ہے اور یہ مراٹھا سورما بغیر لڑے تو ہار قبول کرنے والا ہے ہی نہیں۔

اجیت اب 63 سال کے ہیں جبکہ ان کے چچا شرد پوار 84 سال کے۔ جب اجیت پرائمری اسکول میں تھے، شرد پوار سیاست میں اپنا کیریئر بنا رہے تھے۔ شرد پوار کی بیٹی سپریا سولے بارامتی سے ایم پی ہیں۔ سپریا کو اس سیاسی وراثت کو سنبھالنے سے روکنے کے لیے اجیت نے بی جے پی سے ہاتھ ملایا۔ الیکشن کمیشن نے ان کے دھڑے کو ’اصلی‘ این سی پی کے طور پر اس بنیاد پر تسلیم کیا ہے کہ ایم ایل ایز کی اکثریت ان کی حمایت کرتی ہے۔ بظاہر تو ہر لحاظ سے بھتیجے نے چچا کو مات دے دی ہے لیکن کیا وہ واقعی ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟

پارٹی سے متعلق فیصلہ لینے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر چھوڑتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ایم ایل اے کی وفاداری پارٹی تنظیم کی حمایت کا پیمانہ نہیں ہو سکتی۔ پارٹی دونوں کام کرتی ہے - وہ ایم ایل اے کو کھڑا کرتی ہے اور انہیں ٹکٹ دینے سے بھی انکار کرتی ہے۔ منطقی طور پر ایک بار منتخب ہونے کے بعد ایم ایل ایز کی اکثریت پارٹی کے خلاف نہیں جا سکتی اور نہ ہی پارٹی پر قبضہ کر سکتی ہے۔ اس لیے کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کیا جانا تقریباً یقینی ہے۔

شرد پوار کو شرد راؤ پوار اور شرد چندر پوار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ انہوں نے تقریباً 25 سال قبل این سی پی کی بنیاد رکھی تھی۔ اسے اپنے باغی بھتیجے کے حوالے ہوتے دیکھنا ان کے لیے یقیناً تکلیف دہ ہوگا۔ 1999 میں انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس سے علیحدگی اختیار کی اور این سی پی تشکیل دی۔ یہ گزشتہ سال تک 6 تسلیم شدہ قومی جماعتوں میں سے ایک تھی۔ اجیت کے عزائم صرف مہاراشٹر تک محدود ہیں۔ مبصرین اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ آیا وہ دوبارہ این سی پی کو قومی بنا پاتے ہیں یا نہیں۔ اجیت ’دادا‘ پوار کا اثر کچھ علاقوں سے باہر نہیں ہے اور نہ ہی ودربھ اور مراٹھواڑہ میں ان کی پارٹی کا کوئی اثر ہے۔ سینئر پوار کے حامی جتیندر اوہاڈ نے بھی طنزیہ انداز میں کہا بھی ’آپ ریاست کے باہر پہچانے بھی نہیں جاتے۔ دیکھیں، آپ ان 20 دیگر ریاستوں میں این سی پی کا اثر کیسے برقرار رکھتے ہیں جہاں پوار صاحب کی موجودگی ہے۔‘


اجیت پوار اچھی طرح جانتے ہیں کہ این سی پی ہمیشہ شرد پوار کے ساتھ رہی ہے۔  کمیشن کے فیصلے سے بمشکل 2 دن پہلے اجیت نے اپنے آبائی حلقہ بارامتی میں لوگوں سے جذباتی نہ ہونے اور اپنے بیمار چچا کو ووٹ نہ دینے کی اپیل کی تھی۔ زیادہ تر لوگ اس سے خوش نہیں ہوئے۔ انہیں یاد ہے کہ ان کے بیمار چچا نے کس طرح ستارا میں موسلادھا بارش کے درمیان انتخابی جلسے سے خطاب کیا تھا۔ 2019 میں شرد پوار بی جے پی کے خلاف تن کر کھڑے ہوئے اور ایک ایسے نوکر شاہ کی جیت کو یقینی بنایا تھا جسے بہت کم لوگ جانتے تھے۔

 حملوں کی تیز دھار

شیو سینا (یو بی ٹی) کے صدر ادھو ٹھاکرے برسوں سے اپنے والد بال ٹھاکرے کے انتہا پسند ہندوتوا سے خود کو دور رکھتے رہے ہیں۔ تشد سے پرہیز  اور بالا صاحب ٹھاکرے کی شبیہ کو زیادہ اجاگر نہ کرنے کی وجہ سے ادھو کو ہندوتوا بنیاد پرست نشانہ بنا رہے ہیں اور ادھو کی باتوں پر لبرل سماج کو بھی یقین نہیں ہوتا رہا ہے۔ لیکن جب ادھو وزیر اعلیٰ تھے تو ان کے کام نے لبرل اور اقلیتوں دونوں کو متاثر کیا۔ کوویڈ کے دوران انہوں نے سڑکوں پر گنپتی آرتیوں اور نماز دونوں پر پابندی لگا دی تھی۔ جب ان کے چچا زاد بھائی راج ٹھاکرے اور بی جے پی نے رمضان کے دوران مساجد کے باہر ہنومان چالیسہ پڑھ کر فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی تو انہوں نے مسجدوں سے 100 میٹر کے فاصلے پر اذان سے 15 منٹ پہلے اور بعد میں اس کی اجازت دی۔

ادھو کے لیے ہندوتوا کے اپنے فرینڈلی برانڈ پر اس طرح زور دینا مشکل تھا جس سے مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) کے دیگر اتحادی ناراض ہوں۔ ایسے میں بی جے پی نے نادانستہ طور پر ہی سہی انہیں ایک موقع دے دیا - انہیں آخری وقت تک رام مندر پران پرتیشٹھا پروگرام کا دعوت نامہ نہیں بھیجا گیا۔ اس سے ادھو ممکنہ ’دھرم سنکٹ‘ سے بچ گئے۔ اگر وہ نہ جاتے تو ان کے سیاسی مفادات متاثر ہوتے اور اگر وہ چلے جاتے تو ’انڈیا‘ اتحاد کے ساتھ ان کے تعلقات متاثر ہوتے – کیونکہ ’انڈیا‘ اتحاد نے مجموعی طور پر اس طرح کی دعوت کو مسترد کر دیا تھا۔

ادھو نے سمجھداری سے 22 جنوری کو اسی دن ناسک سے اپنی انتخابی مہم شروع کردی۔ یہاں ترمبکیشور مندر ہے، خیال کیا جاتا ہے کہ رام، سیتا اور لکشمن اپنے جلاوطنی کے دوران یہاں ٹھہرے تھے۔ ناسک میں کالارام مندر بھی ہے جہاں برہمن پجاریوں کے ذریعے نچلی ذات کے ہندووں کو مندر میں داخلے کے خلاف تحریک کا ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور 1930 کی دہائی کے سماجی مصلح سانے گروجی نے قیادت کی تھی۔ اس کی تائید ادھو کے دادا پربودھنکر ٹھاکرے کی سخت تحریروں سے ہوئی تھی۔ ان کے پوتے کے الفاظ بھی کم نشتر آمیز نہیں تھے جب انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم فخر سے اپنا بھگوا جھنڈا لہراتے ہیں، یہ آپ ہیں جو انہیں نیچا دکھاتے ہیں۔ آپ کا ہندوتوا دیگر مذاہب کے درمیان آگ بھڑکانے میں یقین رکھتا ہے۔ ہمارا ہندوتوا گھر کا چولہا جلانے میں یقین کرتا ہے جبکہ آپ کا ہندو توا گھر جلانے میں۔‘


ادھو ٹھاکرے جس طرح سے سوشلزم، سیکولرازم اور ہندوتوا کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ کوکن علاقے میں دکھائی دیا۔ انہوں نے یہاں کہا کہ وہ نریندر مودی کے دشمن نہیں ہیں – ہم نے بی جے پی کو نہیں چھوڑا ہے، بلکہ صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ انہوں نے موجودہ حکومت کو ’شیطان‘ تک کہا۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر یہ شیطان دوبارہ واپس آیا تو جمہوریت زندہ نہیں بچے گی اور اگلے سال سے یوم جمہوریہ ملک میں ’یوم جہنم‘ بن جائے گا۔‘‘ شاید اتنی سخت بات اسی وقت کہی جا سکتی ہے جب کوئی دوست دشمن بن جائے۔

 اب ’مغلائی‘ مراٹھا

مراٹھا ریزرویشن کے معاملے کو جس لاپرواہی سے نمٹا گیا، اس سے ریاست کے حکمراں ’مہا یوتی‘ اتحاد میں دراڑ پیدا ہوگئی ہے۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے اپنی مراٹھا شناخت پر زور دے کر ریاست کے 33 فیصد مراٹھوں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ انہوں نے 52 فیصد دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کو الگ تھلگ کر دیا ہے۔ یہ طبقہ ان کے فیصلے کی اس بنیاد پر مخالفت کر رہا ہے کہ مراٹھوں کو ’کنبی‘ سرٹیفکیٹ جاری کرکے ’بیک ڈور انٹری‘ دی جا رہی ہے۔ کنبی مراٹھوں کا ذیلی طبقہ ہے جسے OBC تسلیم کیا جاتا ہے۔

اس تحریک کی قیادت خوراک اور شہری رسد کے وزیر چھگن بھجبل کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مراٹھوں کو ریزرویشن دینے کی حمایت کرتے ہیں لیکن اسی وقت تک جب تک کہ انہیں او بی سی کوٹہ میں سے حصہ نہیں دیا جاتا ہے۔ اس پر کئی تحریکیں چلنا شروع ہو گئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بھجبل کے باغی رویہ کو دیکھ کر ’مہا یوتی‘ کے ایک ایم ایل اے نے ان سے کہا کہ انہیں ایسی حکومت میں وزیر نہیں رہنا چاہیے جس کے فیصلوں کی وہ مخالفت کرتے ہیں۔ اس پر ایک چونکا دینے والا واقعہ رونما ہوا۔ انہوں نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا جسے وزیر اعلیٰ شندے جو پہلے ہی تنازعات میں گھری حکومت کی قیادت کر رہے ہیں، منظور نہیں کیا تاکہ یہ خلا مزید نہ بڑھ جائے۔


بھجبل برسوں سے او بی سی لیڈر کے طور پر ابھرنے کی کوشش کر رہے تھے اور اس بار انہیں سنہرا موقع ملا ہے۔ وزارتی عہدے کی ’قربانی‘ اور مرکزی ایجنسیوں کی طرف سے ہراساں کیے جانے کا خطرہ فوائد حاصل کرنے کے لیے لیا گیا ایک شعوری فیصلہ ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس قسم کے خطرے سے بچنے کے لیے ہی حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ ویسے انہیں ونچیت بہوجن اگھاڑی لیڈر پرکاش امبیڈکر سے بھی لڑنا ہے۔ امبیڈکر کا کہنا ہے کہ 2 قسم کے مراٹھا ہیں۔ ایک حیدرآباد نظام کی حکومت والے مراٹھواڑہ کے ’نظامی‘ مراٹھا اور دوسرے دیگر علاقوں کے ’رئیتی‘ مراٹھا۔ نظامی مراٹھا مغل حکمران اورنگزیب کے وفادار تھے جبکہ رئیتی مراٹھا چھترپتی شیواجی مہاراج کے وفادار۔ امبیڈکر کا ماننا ہے کہ ’مغلائی‘ مراٹھا امیر و کبیر، مراعات یافتہ اور طاقتور رہے ہیں اس لیے انہیں ریزرویشن مانگنا ہی نہیں چاہئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔