کیا حکومت اور پولیس کو مزید اختیارات دینے کے لیے لائے گئے ہیں آئی پی سی-سی آر پی سی میں بدلاؤ والے بل!

آئی پی سی، سی آر پی سی اور انڈین ایویڈنس ایکٹ جیسے نوآبادیاتی دور کے قوانین کو بدلنا ضروری تو ہے، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر حکومت نے اس بل کو مانسون اجلاس کے آخری دن کیوں پیش کیا؟

عدالت، تصویر آئی اے این ایس
عدالت، تصویر آئی اے این ایس
user

اتم سین گپتا

اگر مرکزی حکومت نوآبادیاتی دور کے قوانین میں اصلاح کے بارے میں سنجیدہ ہوتی تو وہ انھیں پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے پہلے دن پیش کرتی، جس سے اراکین پارلیمنٹ کو التزامات کا مطالعہ کرنے کا وقت ملتا۔ لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا اور تعزیرات ہند (آئی پی سی)، کریمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) اور انڈین ایویڈنس ایکٹ (آئی ای اے) کو بدلنے والے تین بل آخری دن اجلاس کے آخر میں پیش کیے گئے۔

غور طلب یہ بھی ہے کہ بل وزیر داخلہ کے ذریعہ پیش کیے گئے نہ کہ وزیر قانون کے ذریعہ۔ بلاشبہ ان بلوں کو جانچ کے لیے وزارت داخلہ سے جڑی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جانا ہے اور قانونی برادری کے پاس پارلیمنٹ کی دوبارہ میٹنگ ہونے تک اس کی خوبیوں و خامیوں پر بحث کرنے کا وقت ہوگا۔ لیکن پارلیمانی کمیٹی یا دیگر باڈی کے ذریعہ پیش کردہ ترامیم، اگر کوئی ہو، کو منظؤر کرنا حکومت کی مکمل دانشمندی پر منحصر ہوگا۔ ویسے دیکھا جائے تو حکومت کا یہ قدم کچھ سمجھ سے بالاتر ہی معلوم ہوتا ہے۔


ان بلوں کے شروعاتی مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ آئی پی سی کو بدلنے والا بل پولیس اور حکومت کو نوآبادیاتی دور کے مقابلے میں مزید طاقت فراہم کرتا ہے۔ مثلاً آئی پی سی نے پولیس کو 15 دنوں تک ملزم کی حراست (پولیس ریمانڈ) میں رکھنے کی اجازت دی تھی، نئے بل میں پولیس کی دانشمندی پر اس مدت کو 60 یا 90 دنوں تک بڑھانے کی تجویز ہے۔ اس مدت کو بڑھانے سے متعلق واضح طور سے کوئی مناسبت، کیس اسٹڈی یا تجرباتی ثبوت کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے۔ جیسا کہ کپل سبل نے اپنے ابتدائی رد عمل میں بتایا ہے کہ ایسا ہونے کا امکان ہے کہ اس سہولت کا استعمال حکومت اور پولیس کے ذریعہ سیاسی مخالفین کے خلاف کیا جائے گا۔

ناقدین نے یہ بھی کہا کہ اگر 'اصلاح' پر توجہ مرکوز کیا گیا ہوتا تو بل شہریوں کے ساتھ سلوک کرتے وقت پولیس کی طاقتوں کو پابند کرنے کی کوشش کرتے۔ پہلے سے ہی ایسی شکایتیں ہیں کہ پولیس ظلم (ٹارچر) کو جرم قبول کرنے کے ذرائع کی شکل میں استعمال کرتی ہے۔ ایسے بھی الزام لگتے رہے ہیں کہ پولیس ثبوت پلانٹ کر دیتی ہے، لیکن بل ان ایشوز پر خاموش ہے۔


اس بات کو لے کر بھی وضاحت نہیں ہے کہ 2020 میں وبا کے دوران ہی تشکیل دہلی واقع ماہر کمیٹی نے ریاستوں سے مشورہ کیا تھا یا نہیں۔ ہندوستان میں قوانین کا مسودہ تیار کرنے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا ہے (یا کہیں کہ کمزوریوں میں سے ایک یہ رہی ہے) کہ قوانین کی ضرورت یا ان کی عجلت کو ظاہر کرنے کے لیے تجربات پر مبنی ڈاٹا اور ریسرچ سامنے ہوتا ہی نہیں ہے۔ یعنی کوئی قانون کیوں بنایا جا رہا ہے، کس وقت بنایا جا رہا ہے اور اس کے لیے مناسب تحقیق یا اسٹڈی کی گئی ہے یا نہیں، پتہ ہی نہیں ہوتا۔

ایک مثال لیتے ہیں، انڈین جیوڈیشیل کوڈ، جو انڈین پینل ایکٹ کی جگہ لے گی، اس میں غدارِ وطن کی دفعہ یا ایکٹ کو ہٹا دیا گیا ہے۔ دراصل حکومت نے اس قانون کو رد کرنے کے مطالبہ والی عرضیوں پر سماعت کر رہی سپریم کورٹ کی بنچ کو بتایا تھا کہ حکومت اس قانون میں تبدیلی کے لیے قدم اٹھا رہی ہے۔ اس دفعہ کو اب منسوخ کر دیا گیا ہے لیکن حکومت کے خلاف شعلہ بیاں تقریر، تحریر یا اعمال کے لیے یکساں یا اس سے بھی زیادہ سخت سزا مقرر کیے گئے ہیں۔ لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کمیٹی نے واقعی میں وطن سے غداری کی روش کو سمجھنے کے لیے گزشتہ 10 سالوں کے دوران درج وطن سے غداری کے معاملوں اور اعداد و شمار کا مطالعہ کیا ہے یا نہیں۔


اسی طرح نئے بل کی دفعہ 195 میں ملک کی خود مختاری، اتحاد، سالمیت یا سیکورٹی کو خطرے میں ڈالنے کے لیے سزا کا تذکرہ ہے۔ اس تشریح کو قصداً غیر واضح رکھا گیا ہے اور یہ اندیشہ ہے کہ اس دفعہ کا استعمال صحافیوں، مصنفین، میڈیا اور عدم اتفاق ظاہر کرنے والے لوگوں کے خلاف کیا جائے گا۔

بلوں میں کئی قابل استقبال اور ترقی پذیر التزامات بھی پیش کیے گئے ہیں، مثلاً سزا کی شکل میں کمیونٹی سروس کرنے کی ہدایت، چھوٹے موٹے جرائم کے نمٹارے کے لیے مقدمات کی فوری اور چھوٹی سماعت، دہشت گردی کی تشریح کرنا اور اگلے پانچ سالوں کے اندر ہر ضلع میں ایک فورنسک بنیادی ڈھانچہ قائم کرنے کا وعدہ۔ لیکن اچھے ارادے ہمیشہ عمل درآمد کی طرف نہیں لے جاتے۔ ان پانچ سالوں کے دوران درج ہوئے معاملوں اور مقدمات کا کیا ہوگا؟


کوئی بھی قانون تبھی تک اچھا ہے جب تک اسے نافذ کرنے والی ایجنسیاں اچھے سے نافذ کروائیں۔ جب تک حکومت شہریوں کے ساتھ دشمن جیسا سلوک کرتی رہے گی اور قانون کا چنندہ طریقے سے استعمال کرتی رہے گی، تب تک کوئی حقیقی بہتری ممکن نہیں ہے۔ ہریانہ کا بدنام زمانہ گئو رکشک مونو مانیسر، جو گزشتہ دو سال سے فرار بتایا جا رہا ہے، کو اس ہفتے ایک ٹی وی چینل نے اعزاز بخشا۔ ایسا نہیں ہے کہ آئی پی سی میں اسے گرفتار کرنے اور سزا دینے کا کوئی التزام نہیں ہے، لیکن وہ اب بھی فرار ہے۔

ماہرین بار بار کہتے رہے ہیں کہ مجرمانہ نظامِ انصاف میں بڑی تبدیلی کے لیے حکومت اور شہری کے درمیان تعلقات کو پھر سے متعارف کرنے، پولیس اور عدلیہ میں سخت اصلاح اور وسیع جیل اصلاح کی ضرورت ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔