جھوٹ کے سہارے سماج میں زہر گھول رہے فرقہ واریت کے سوداگر، ہندو-مسلم دونوں فسادات سے بے حال

ایسے سینکڑوں دستاویزات موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم حاکموں نے ہندو مندروں کے لیے طرح طرح کا عطیہ دیا اور کئی طرح سے ان کی امداد کی، لیکن ان مثالوں کی بات یہ فرقہ واریت کے سوداگر نہیں کرتے۔

<div class="paragraphs"><p>نوح میں تشدد کا منظر</p></div>

نوح میں تشدد کا منظر

user

بھرت ڈوگرا

حال ہی میں میوات علاقہ میں فرقہ وارانہ تشدد بھڑک اٹھا۔ فرقہ پرست عناصر نے نئی پرانی کئی باتیں کہہ ڈالیں جو مدلل نہیں تھیں لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ جب باہری طرف سے حملہ ہوا تھا تو رانا سانگا کا ساتھ دینے کے لیے حسن خاں میواتی پہنچ گئے تھے اور بہت بہادری سے اپنا تعاون کیا تھا۔ حالانکہ فرقہ پرست عناصر کو مختلف مذاہب کا آپسی اتحاد اور خیر سگالی کی مثالیں تو نظر ہی نہیں آتی ہیں۔ ایسے سینکڑوں دستاویزات موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم حاکموں نے ہندو مندروں کے لیے طرح طرح کا عطیہ دیا اور کئی طرح سے ان کی امداد کی، لیکن ان مثالوں کی بات یہ فرقہ واریت کے سوداگر نہیں کرتے ہیں۔

اگر ان کے تعصب سے پاک ہو کر ہم تاریخ کو غیر جانبدارانہ ڈھنگ سے پڑھا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ دور وسطیٰ کے ہندوستان میں کئی ہندو تیرتھ مقامات کو مسلم حاکموں کا تحفظ اور مدد حاصل ہوا۔ ان تیرتھ مقامات کی ترقی میں اس امداد کا اہم تعاون تھا۔

متھرا-ورنداون علاقہ: اس علاقہ کے تقریباً 35 مندروں کے لیے مغل حاکموں اکبر، جہانگیر اور شاہجہاں سے امداد ملتی رہی۔ تقریباً 1000 بیگھہ زمین کا انتظام ان مندروں کے لیے کیا گیا تھا۔ ان دستاویزات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان مندروں کے طرح طرح کے مسائل سلجھانے میں مغل حاکموں اور ان کے افسروں نے بہت چابکدستی دکھائی۔

ایودھیا: اودھ کے نوابوں اور ان کے افسروں نے ایودھیا میں کئی مندر تعمیر کروائے، ان کی مرمت کروائی اور ان کے لیے زمین عطیہ دی۔

چترکوٹ: ایک مغل حاکم نے چترکوٹ میں ایک مشہور مندر کے لیے بہت سی ٹیکس سے پاک زمین کا انتظام کیا۔ اسی طرح کے ثبوت ملک کے کئی دیگر مندروں سے بھی ملے ہیں۔


ہندو فرقہ پرست تنظیم یہ شکایت کرتے ہیں کہ مسلم حکمراں ہندو مذہب اور ثقافت سے دور رہے۔ ارے کیا تم نے کشمیر کے راجہ زین العابدین یا بڈ شاہ کا نام نہیں سنا جو عوامی طور پر ہندو تہواروں میں شامل ہوئے اور جنھوں نے مندر تعمیر کرائے؟ کیا تم نے دکن کے راجہ ابراہم عادل شاہ دوئم کا نام نہیں سنا جنھوں نے اپنے گیتوں میں کئی بار سرسوتی کی وَندنا کی ہے؟ کیا آپ نے دکن کے ہی ایک دیگر راجہ علی عادل شاہ کا نام نہیں سنا جنھوں نے بہترین لائبریری بنائی اور اس میں سنسکرت کے مشہور عالم پنڈت وامن پنڈت کو مقرر کیا؟

رسکھان اور رحیم کی کرشن بھکتی (یا رام بھکتی) کی جڑیں کہاں تھیں؟ یہ جڑیں تھیں اس بھکتی تحریک میں جہاں ایشور اور اللہ کے ایک ہونے کی بات کہی جا رہی تھی، جہاں سَنت پران ناتھ وید اور قرآن میں یکساں تعلیم ہونے کی بات کر رہے تھے تو سَنت کبیر ہندو اور ترک کے ایک ہونے کی بات کر رہے تھے، جہاں صوفی اور سَنت سبھی طرح کی تفریق سے اوپر اٹھ کر بھگوان سے ایک ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ دوسری طرف اکبر کے عبادت خانہ میں ہر مذہب کے مرید کی بات سنی جا رہی تھی اور اس کے ذریعہ قائم ترجمہ گھر میں رامائن اور گیتا کا تجربہ ہو رہا تھا۔


دورِ وسطیٰ کی اہم جنگوں کو دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ یہ ہندو-مسلم جنگ نہیں تھے، بلکہ دونوں طرف ملی جلی افواج تھیں۔ ہلدی گھاٹی کی جنگ میں اکبر کی طرف سے راجہ مان سنگھ کو سپہ سالار بنایا گیا، تو رانا پرتاپ کی طرف سے حکم خاں سور اور اس کے مسلم فوجی بہادری سے لڑے۔

جب باہری حملے ہوتے تھے تو ان کا بوجھ ہندو-مسلم دونوں کو برداشت کرنا پڑتا تھا۔ منگول حملوں سے نمٹنے میں ہندو-مسلم دونوں کا مشترکہ کردار تھا۔ ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جن میں ہندو راجہ نے ہرا دیا اور استحصال کیا تو اسے مسلم راجہ نے پناہ دی۔ مثال کے لیے مارواڑ کے راجہ نے بیکانیر کے راجہ کو شکست دی اور بیکانیر کا راجہ جنگ میں ہڑتا ہوا مارا گیا۔ تب اس کے بیٹوں کلیان داس اور بھیم کو پناہ کہاں ملی؟ شیرشاہ سوری کے دربار میں۔ اسی طرح ہمایوں کو شیرشاہ سوری نے شکست دی تو اسے پناہ کس نے دی؟ امرکوٹ کے رانا نے۔ وہیں اکبر کی پیدائش بھی ہوئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔