کہانی 'چلو اک بار پھر سے اجنبی…' نغمہ کی، جسے اپنے عشق کی ناکامی پر ساحر نے قلم بند کیا تھا... اطہر مسعود

عشق میں ناکام اور زندگی سے مایوس ہو کر ساحر نے خود اپنے اوپر ایک نظم لکھی، جسے انھوں نے کسی فلم کے لیے نہیں بلکہ خود اپنے لیے لکھی تھی، کہتے ہیں کہ یہ نظم درحقیقت انھوں نے سدھا ملہوترا کے لیے لکھی تھی

<div class="paragraphs"><p>ساحر لدھیانوی، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

ساحر لدھیانوی، تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آوازبیورو

مشہور شاعر اور نغمہ نگار ساحر لدھیانوی کا آج 102واں یوم پیدائش ہے۔ انھیں کون نہیں جانتا۔ نہ جانے کتنی فلمیں کامیاب ہوئیں ان کے لکھے شاندار نغموں کی وجہ سے۔ ان کا اصل نام عبدالحئی تھا، لیکن اردو ادب کی دنیا میں انھوں نے اپنا تخلص ساحر رکھا تھا۔ ساحر کے لفظی معنی ہوتے ہیں جادوگر اور ان کے لکھے نغمے و غزل اس بات کے جیتے جاگتے نمونے ہیں کہ وہ واقعی لفظوں کے جادوگر تھے۔

ایسی ہی ساحر کی ایک خوبصورت نظم کے بارے میں آج میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں، جو کہ کافی مشہور ہے۔ ساحر جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی بڑے عاشق مزاج شخص بھی تھے۔ یوں تو ان کا نام اس وقت کی مشہور شاعرہ اور ان کی دوست امرتا پریتم سے ان کی نزدیکیوں کو لے کر کافی موضوعِ بحث رہی تھی، لیکن انھوں نے تاعمر شادی نہیں کی۔ ساحر اور امرتا نے بھلے ہی اپنے رشتے کو کوئی نام نہیں دیا تھا لیکن دل سے وہ دونوں ایک تھے۔


اس کے ساتھ ہی اس دور کی پلے بیک گلوکارہ سدھا ملہوترا کے ساتھ بھی ساحر کے فسانوں کا تذکرہ عام تھا۔ سدھا ملہوترا نے ساحر کے لکھے کئی نغمے گائے تھے، جس وجہ سے ان کی پہچان سدھا سے ہوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ گلوکارہ سدھا ملہوترا سے پہلی ہی ملاقات میں وہ انھیں اپنا دل دے بیٹھے تھے۔ لیکن خود سدھا ملہوترا بتاتی ہیں کہ ساحر کا پیار ہمیشہ یکطرفہ ہی رہا، کیونکہ ان کی طرف سے کبھی ساحر کو کوئی جواب نہیں ملا تھا۔ کہتے ہیں کہ سدھا ملہوترا سے نزدیکیوں کی وجہ سے ہی امرتا پریتم سے ان کی علیحدگی ہوئی تھی، لیکن جب 1960 میں سدھا ملہوترا نے شادی کر لی تو ساحر کا یہ فسانہ بھی ادھورا ہی رہ گیا۔

اپنے عشق میں ناکام اور زندگی سے مایوس ہو کر ساحر نے خود اپنے اوپر ایک نظم لکھی، جسے انھوں نے کسی فلم کے لیے نہیں بلکہ خود کے لیے لکھی تھی۔ کہتے ہیں کہ یہ نظم درحقیقت انھوں نے سدھا ملہوترا کے لیے ہی لکھی تھی۔


بی آر چوپڑا کی کئی فلموں میں کام کرنے کے بعد ساحر اور بی آر چوپڑا میں کافی اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ ایک دن بی آر چوپڑا کسی موقع پر ساحر کے گھر پہنچے۔ اس وقت وہ فلم 'گمراہ' بنا رہے تھے۔ تبھی وہ میز پر رکھی ساحر کی ڈائری پڑھنے لگے۔ اس میں لکھی ہوئی ایک نظم ان کو بہت پسند آئی۔ بی آر چوپڑا نے ساحر سے اس نظم کو اپنی فلم 'گمراہ' کے لیے دینے کو کہا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وہی نظم ہے جسے ساحر نے سدھا ملہوترا سے اپنے ناکام عشق پر لکھی تھی۔ ساحر نے وہ نظم دینے سے فوراً یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ یہ نظم میری زندگی کی آپ بیتی ہے، اسے میں نے اپنے لیے لکھی ہے۔ میں نے اس کو کسی کو بھی نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن بی آر چوپڑا کہاں ماننے والے تھے۔ انھوں نے یہ کہتے ہوئے ان سے دوبارہ وہ نظم مانگی کہ میری آنے والی فلم کی ایک سیچویشن کے لیے اس سے اچھی نظم کوئی دیگر نہیں ہو سکتی۔ ان کے یوں بار بار اصرار کرنے پر ساحر مان گئے اور انھوں نے وہ نظم بی آر چوپڑا کو دے دی۔

بی آر چوپڑا نے اپنی فلم 'گمراہ' میں اس نظم کا استعمال کیا۔ موسیقار روی نے جب اس کو سازوں میں ڈھالا اور مہندر کپور نے اسے اپنی خوبصورت آواز دی تو وہ نظم مزید حسین لگنے لگی۔ جب 'گمراہ' فلم ریلیز ہوئی تو ساحر کی اس نظم کو لوگوں نے خوب پسند کیا۔ آج بھی لوگ بڑے شوق سے اس نظم کو گنگناتے ہیں اور وہ نظم تھی 'چلو ایک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں'۔ پوری نظم کو جب آپ غور سے سنیں گے تو پائیں گے کہ واقعی اس میں ساحر نے کھل کر اپنے دلی جذبات کو ظاہر کیا ہے۔ ایک جگہ تو وہ صاف صاف کہتے ہیں کہ:


تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بھولنا بہتر

تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا

وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن

اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

چلو ایک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

(اطہر مسعود کا یہ مضمون ہندی نیوز پورٹل نوجیون انڈیا ڈاٹ کام سے لیا گیا ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔