'تو ہم سے نہ رکھ کچھ غبار ہولی میں'، رنگوں کے تہوار ہولی پر اُردو شعرا نے خوب کی طبع آزمائی

ہولی ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا اہم جز تصور کیا جاتا ہے، امیر خسرو، بلھے شاہ، نظیر اکبر آبادی جیسے استاد شعراء کے ساتھ ساتھ بیکل اُتساہی، ناصر امروہوی وغیرہ نے بھی ہولی پر اشعار قلمبند کیے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>ہولی، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

ہولی، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

ہولی موسم بہار میں منایا جانے والا اہم  ترین تہوار ہے۔ یہ ہندو تقویم کے مطابق پھاگن ماس کی پورے چاند کو منایا جاتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ رنگوں کا یہ تہوار صرف ہندو طبقہ میں ہی مشہور نہیں ہے، بلکہ مسلم بھی اس تہوار کا جشن بھرپور انداز میں مناتے ہیں اور اسے 'گلابی عید' کہتے ہیں۔ مغل دور کی مستند تاریخی کتابوں میں اکبر کا اپنی بیوی کے ساتھ ہولی کھیلنے کا ذکر ملتا ہے۔ کچھ کتابوں میں مذکور ہے کہ جہانگیر بھی نورجہاں کے ساتھ ہولی کھیلا کرتا تھا۔ الور میوزیم میں موجود ایک تصویر میں جہانگیر کو ہولی کھیلتے ہوئے دکھایا بھی گیا ہے۔

غوث سیوانی نے اپنے ایک مضمون میں مغل دور کی ہولی کا مختصر انداز میں تذکرہ کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم طبقہ میں یہ تہوار کیا اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ "شاہ جہاں کے وقت تک ہولی کھیلنے کا انداز بدل گیا تھا۔ تاریخ میں بیان ہے کہ شاہ جہاں کے زمانہ میں ہولی کو 'عیدِ گلابی' یا 'عیدِ آب پاشی' (رنگوں کی بوچھارکا تہوار) کہا جاتا تھا۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے بارے میں مشہور ہے کہ ہولی پر ان کے وزیر انہیں رنگ لگانے جایا کرتے تھے۔ قدیم پینٹنگز اور پرانے مندروں کی دیواروں پر اس جشن کی تصاویر ملتی ہیں۔ وجے نگر اور احمد نگر کی ریاستوں میں بھی ہولی کھیلنے کی تاریخی رویات ملتی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ شاہی محلات میں بھی رنگ کھیلنے اور خوشیاں منانے کا رواج تھا۔ اس موقع پر تحفے تحائف کے تبادلے کی بھی روایت ملتی ہے۔"

'تو ہم سے نہ رکھ کچھ غبار ہولی میں'، رنگوں کے تہوار ہولی پر اُردو شعرا نے خوب کی طبع آزمائی
HVN

درحقیقت ہولی ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا ایک اہم جز تصور کیا جاتا ہے اور اردو شعرا نے اس تہوار پر خوب طبع آزمائی کی ہے۔ امیر خسرو، بلھے شاہ، نظیر اکبر آبادی، حسرت موہانی جیسے استاد شعراء کے ساتھ ساتھ بیکل اُتساہی، ناصر امروہوی، مصحفی غلام ہمدانی وغیرہ نے بھی ہولی پر نظمیں اور اشعار قلمبند کیے ہیں۔ آئیے یہاں کچھ اشعار پر نظر ڈالتے ہیں:

میر تقی میر:

سینکڑوں پھولوں کی چھڑی کے ساتھ 

قمقمے جو گلال کے مارے

مہوشاں لالہ رخ ہوئے سارے 

خوان بھر بھر عبیر لاتے ہیں

گل کی پتی ملا اڑاتے ہیں

جشن نوروز ہند ہولی ہے

راگ رنگ اور بولی ٹھولی ہے

نظیر اکبر آبادی:

میاں تو ہم سے نہ رکھ کچھ غبار ہولی میں

کہ روٹھے ملتے ہیں آپس میں یار ہولی میں

مچی ہے رنگ کی کیسی بہار ہولی میں

ہوا ہے زور چمن آشکار ہولی میں

عجب یہ ہند کی دیکھی بہار ہولی میں


حسرت موہانی:

بنتی کرت ہوں تہاری

پنیا بھرن کا جائے نہ دیہیں

شیام بھرے پچکاری

تھر تھر کانپن لاجن حسرت

دیکھت ہیں نرناری

ناصر امروہوی:

تیرے گالوں پہ جب گلال لگا

یہ جہاں مجھ کو لال لال لگا

مصحفی غلام ہمدانی:

موسم ہولی ہے دن آئے ہیں رنگ اور راگ کے

ہم سے تم کچھ مانگنے آؤ بہانے پھاگ کے


آخر میں آئیے ہولی پر تین مشہور نظمیں بھی پڑھتے چلیں جو امیر خسرو، بلھے شاہ اور نذیر بنارسی کی لکھی ہوئی ہیں…

آج رنگ ہے اے مہا رنگ ہے ری (امیر خسرو)

آج رنگ ہے اے مہا رنگ ہے ری

آج رنگ ہے اے مہا رنگ ہے ری

میرے محبوب کے گھر رنگ ہے ری

موہے پیر پایو نجام الدین اولیا

نجام الدین اولیا علاء الدین اولیا

علاء الدین اولیا فرید الدین اولیا

فرید الدین اولیا قطب الدین اولیا

قطب الدین اولیا معین الدین اولیا

معین الدین اولیا محی الدین اولیا

آ محی الدین اولیا محی الدین اولیا

وہ تو جہاں دیکھو مورے سنگ ہے ری

ارے اے ری سکھی ری

وہ تو جہاں دیکھو مورو بر سنگ ہے ری

موہے پیر پایو نجام الدین اولیا

آہے آہے آہے وا

منہ مانگے بر سنگ ہے ری

وہ تو منہ مانگے بر سنگ ہے ری

نجام الدین اولیا جگ اجیارو

جگ اجیارو جگت اجیارو

وہ تو منہ مانگے بر سنگ ہے ری

میں پیر پایو نجام الدین اولیا

گنج شکرؔ مورے سنگ ہے ری

میں تو ایسو رنگ اور نہیں دیکھیو سکھی ری

میں تو ایسی رنگ دیس بدیس میں ڈھونڈ پھری ہوں

دیس بدیس میں

آہے آہے آہے وا

اے تورا رنگ من بھایو نجام الدین

منہ مانگے بر سنگ ہے ری

سجن ملوارا اس آنگن ما

سجن سجن تن سجن ملاو را

اس آنگن میں اس آنگن میں

ارے اس آنگن میں وہ تو اس آنگن میں

ارے وہ تو جہاں دیکھو مورے سنگ ہے ری

آج رنگ ہے اے مہا رنگ ہے ری

اے تورا رنگ من بھایو نجام الدین

میں تو تورا رنگ من بھایو نجام الدین

منہ مانگے بر سنگ ہے ری

میں تو ایسو رنگ اور نہیں دیکھی سکھی ری

اے محبوب الٰہی میں تو ایسو رنگ اور نہیں دیکھی

دیس بدیس میں ڈھونڈ پھری ہوں

آج رنگ ہے اے مہا رنگ ہے ری

میرے محبوب کے گھر رنگ ہے ری

ہوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ (بلہے شاہ)

ہوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ

نام نبیؐ کی رتن چڑھی بوند پڑی اللہ اللہ

رنگ رنگیلی اوہی کھلاوے جو سکھی ہووے فنا فی اللہ

ہوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ

الست بربکم پیتم بولے سب سکھیاں نے گنگھٹ کھولے

قالو بلیٰ ہی یوں کر بولے لا الہ الا اللہ

ہوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ

نحن اقرب کی بنسی بجائی من عرف نفسہ کی کوک سنائی

فثم وجہ اللہ کی دھوم مچائی وچ دربار رسول‌ اللہ

ہوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ

ہاتھ جوڑ کر پاؤں پڑوں گی عاجز ہو کر بنتی کروں گی

جھگڑا کر بھر جھولی لوں گی نور محمد صلی اللہ

ہوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ

فاذکرونی کی ہوری بناؤں واشکروالی پیا کو رجھاؤں

ایسے پیا کے میں بل بل جاؤں کیسا پیا سبحان اللہ

ہوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ

صبغتہ اللہ کی بھر پچکاری اللہ الصمد پیا منہ پر ماری

نور نبی دا حق سے جاری نور محمد صلی اللہ

بلیہاؔ شوہ دی دھوم مچی ہے لا الہ الا اللہ

ہوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ


ہولی (نذیر بنارسی)

کہیں پڑے نہ محبت کی مار ہولی میں

ادا سے پریم کرو دل سے پیار ہولی میں

گلے میں ڈال دو بانہوں کا ہار ہولی میں

اتارو ایک برس کا خمار ہولی میں

ملو گلے سے گلے بار بار ہولی میں

لگا کے آگ بڑھی آگے رات کی جوگن

نئے لباس میں آئی ہے صبح کی مالن

نظر نظر ہے کنواری ادا ادا کمسن

ہیں رنگ رنگ سے سب رنگ بار ہولی میں

ملو گلے سے گلے بار بار ہولی میں

ہوا ہر ایک کو چل پھر کے گدگداتی ہے

نہیں جو ہنستے انہیں چھیڑ کر ہنساتی ہے

حیا گلوں کو تو کلیوں کو شرم آتی ہے

بڑھاؤ بڑھ کے چمن کا وقار ہولی میں

ملو گلے سے گلے بار بار ہولی میں

یہ کس نے رنگ بھرا ہر کلی کی پیالی میں

گلال رکھ دیا کس نے گلوں کی تھالی میں

کہاں کی مستی ہے مالن میں اور مالی میں

یہی ہیں سارے چمن کی پکار ہولی میں

ملو گلے سے گلے بار بار ہولی میں

تمہیں سے پھول چمن کے تمہیں سے پھلواری

سجائے جاؤ دلوں کے گلاب کی کیاری

چلائے جاؤ نشیلی نظر سے پچکاری

لٹائے جاؤ برابر بہار ہولی میں

ملو گلے سے گلے بار بار ہولی میں

ملے ہو بارہ مہینوں کی دیکھ بھال کے بعد

یہ دن ستارے دکھاتے ہیں کتنی چال کے بعد

یہ دن گیا تو پھر آئے گا ایک سال کے بعد

نگاہیں کرتے چلو چار یار ہولی میں

ملو گلے سے گلے بار بار ہولی میں

برائی آج نہ ایسے رہے نہ ویسے رہے

صفائی دل میں رہے آج چاہے جیسے رہے

غبار دل میں کسی کے رہے تو کیسے رہے

ابیر اڑتی ہے بن کر غبار ہولی میں

ملو گلے سے گلے بار بار ہولی میں

حیا میں ڈوبنے والے بھی آج ابھرتے ہیں

حسین شوخیاں کرتے ہوئے گزرتے ہیں

جو چوٹ سے کبھی بچتے تھے چوٹ کرتے ہیں

ہرن بھی کھیل رہے ہیں شکار ہولی میں

ملو گلے سے گلے بار بار ہولی میں

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔