سماج

سوئٹزرلینڈ میں برقعے پر مجوزہ پابندی: عوام حامی لیکن پارلیمان خلاف

سوئٹزرلینڈ میں برقعہ پر ملک گیر پابندی کے مطالبے کو پارلیمان نے اکثریتی رائے سے مسترد کر دیا ۔ سوئس وزیر کے مطابق عوامی لباس کے لیے سرکاری ضابطے بنانا لبرل سوئس معاشرے کی سماجی اقدار سے متصادم ہے۔

سوئٹزرلینڈ میں برقعے پر مجوزہ پابندی: عوام حامی لیکن پارلیمان خلاف
سوئٹزرلینڈ میں برقعے پر مجوزہ پابندی: عوام حامی لیکن پارلیمان خلاف 

اس موضوع پر سوئٹزرلینڈ میں عوامی سطح پر مطالبے ایک ایسی تحریک کی طرف سے کیے جا رہے تھے، جس کا نام 'مکمل برقعہ پہننے پر پابندی کے لیے ہاں‘ ہے اور بَیرن میں سوئس پارلیمان نے اس سلسلے میں ایک مسودہ قانون کو نو کے مقابلے میں 34 ووٹوں کی بہت بڑی اکثریت سے رد کر دیا۔

Published: undefined

اس قرارداد کے برعکس ایک دوسری قرارداد پر بھی سوئس ایوان بالا یا 'بنڈس راٹ‘ میں رائے شماری ہوئی، جسے بہت بڑی اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔

Published: undefined

یہ قرارداد اس بارے میں تھی کہ مستقبل میں پورے ملک میں ہر اس انسان کو اپنا چہرہ دکھانا ہو گا، جس کی شناخت کا طے کیا جانا لازمی ہو۔ تاہم اس بارے میں حتمی فیصلہ سوئس ریاست کے تمام کینٹن خود کر سکیں گے۔ اس دوسری قرارداد کے حق میں 35 ارکان نے اپنی رائے دی جبکہ مخالفت کرنے والے اراکین کی تعداد صرف آٹھ تھی۔ دو ارکان نے اپنی رائے محفوظ رکھی۔

Published: undefined

زیادہ متاثر مسلمان خواتین ہوتیں

Published: undefined

برقعہ پہننے کے خلاف سوئٹزرلینڈ میں عوامی سطح پر شروع کی گئی تحریک کا مطالبہ یہ تھا کہ ایلپس کی اس جمہوریہ میں اس بات پر مکمل پابندی ہونا چاہیے کہ کوئی بھی شہری اس طرح عوامی مقامات پر نظر آئے کہ اس کا چہرہ نظر نہ آ رہا ہو۔ اس مطالبے سے سب سے زیادہ وہ قدامت پسند مسلمان خواتین متاثر ہوتیں، جو اس یورپی ملک میں مسلم مذہبی اقلیت کا حصہ ہیں اور برقعہ، نقاب یا حجاب استعمال کرتی ہیں۔

Published: undefined

اگر یہ پارلیمانی قرارداد منظور ہو جاتی، تو اس کا اطلاق آئندہ ایسی سیاح خواتین پر بھی ہوتا، جو محدود عرصے کے لیے سوئٹزرلینڈ آتی ہیں لیکن نقاب یا برقعہ پہننتی ہیں۔ ایسی تمام سیاح خواتین بھی تقریباﹰ ہمیشہ ہی مسلمان ہوتی ہیں۔ اس قرارداد کی منظوری سے سوئ‍‍‍‍‍ٹزرلینڈ میں ایسے مظاہرین کے لیے بھی زندگی مشکل ہو جاتی، جو چہروں پر نقاب پہن کر احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیتے ہیں۔

Published: undefined

قانونی پابندی 'کمزوری کی عکاس‘ ہوتی

Published: undefined

اس موضوع پر سوئس ایوان بالا میں بحث کے دوران خاتون وزیر انصاف کارِن کَیلر زُوٹر نے کہا کہ خواتین کا اپنے چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنا سوئس معاشرتی روایات سے میل نہیں کھاتا اور مسلمانوں میں بھی یہ انتہائی قدامت پسند مذہبی سوچ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ دوسری طرف ریاست کا عوام کو یہ بتانا کہ انہیں کس طرح کا لباس پہننا چاہیے، یہ بات بھی لبرل سوئس معاشرتی اقدار سے عین متصادم ہے۔

Published: undefined

سوئس خاتون وزیر انصاف نے کہا کہ اگر پورے ملک میں برقعہ پہننے پر پابندی لگا دی جاتی، تو یہ دراصل ایک سماجی کمزوری کی عکاس ہوتی۔ اس کے برعکس ملکی پارلیمان نے جو قرارداد منظور کی ہے، اس میں زیادہ دانش مندانہ قانون سازی کرتے ہوئے اس 'مسئلے کو وہیں پر حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جہاں یہ موجود ہے،‘ نہ کہ اس کی وجہ سے برقعہ پہننے پر ملک گیر پابندی لگا دی جاتی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined