سماج

اسقاط حمل کے قانون میں اصلاحات کی طرف جرمنی گامزن

جرمن حکومت اسقاط حمل کو غیر مجرمانہ قرار دینے کے وعدے پر عمل پیرا ہے۔ حکام ایسے قانون کو ختم کرنا چاہتے ہیں جس میں اسقاط حمل سے متعلق معلومات شائع کرنے والے ڈاکٹروں کے خلاف قانونی کارروائی ممکن ہے۔

جرمنی: اسقاط حمل کے قانون میں اصلاحات کی طرف گامزن
جرمنی: اسقاط حمل کے قانون میں اصلاحات کی طرف گامزن 

ویرینا 22 سال کی تھیں جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہیں۔ ''میں واقعی میں آن لائن معلومات تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک غیرارادی پریگنینسی تھی۔ ''یہ معلوم کرنے کا کوئی آسان طریقہ نہیں تھا کہ کون سے ڈاکٹر اسقاط حمل کرتے ہیں، وہ کہاں ہیں یا طریقہ کار کیسے انجام دیا جاتا ہے۔‘‘

Published: undefined

جرمنی میں اسقاط حمل غیر قانونی ہے اور اس کی سزا تین سال تک قید ہے۔ لیکن ان خواتین اور ان کے ڈاکٹروں کو جرمانے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے جن صورتوں میں حمل کی وجہ سے عورت کی صحت کو خطرہ لاحق ہو یا ریپ کی وجہ سے حمل ٹھرا ہو۔ دوسری صورت میں، لازمی مشاورت کے بعد حمل کے پہلے 12 ہفتوں کے اندر اسقاط حمل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس میں ابھی بھی بہت سے مسائل ہیں۔

Published: undefined

جرمنی میں اسقاط حمل کے مراحل میں سب سے بڑی رکاوٹ ضابطہ فوجداری کا پیراگراف 219 اے میں، جس کی شروعات نازی دور کی سماجی پالیسی سے ہوئی تھی، اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ اگر کوئی بھی اسقاط حمل کرنے کی تہشیر کرتا ہے تو اسے دو سال تک قید یا جرمانے کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

Published: undefined

اگرچہ اس پالیسی میں تین سال قبل کی گئی اصلاحات اب ڈاکٹروں کو اپنی ویب سائٹ پر یہ بتانے کی اجازت ہے کہ وہ یہ خدمات سر انجام دیتے ہیں لیکن اس حوالے سے ان پر طبی تفصیلات فراہم کرنے پر پابندی ہے۔

Published: undefined

رواں ہفتے سوشل ڈیموکریٹس، گرین پارٹی اور فری ڈیموکریٹس پر مبنی جرمنی کی مخلوط حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے 219 اے کو ختم کرنے کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہے۔

Published: undefined

کرسٹینا ہینیل مغربی جرمنی کے شہر گیسن میں ایک ماہر امراض نسواں ہیں جو تیس سال سے خواتین کو اسقاط حمل کی سروسز مہیا کر رہی ہیں۔ انہیں 2017 میں 219 اے کے تحت اپنی ویب سائٹ پر اسقاط حمل کی خدمات پیش کرنے پر 6,000 یورو جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی گئی۔ اس کیس نے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ہینیل نے ڈی ڈبلیوسے بات کرتے ہوئے بتایا، ''اگر219 اے کو ختم کر دیا جاتا ہے تو یہ جرمنی میں مریضوں کے لیے معلومات حاصل کرنے کی درست سمت میں ایک قدم ہو گا۔‘‘ویرینا کے مطابق جرمنی میں اسقاط حمل کی سہولت سے متعلق سرچ کرنے پر بھی مکمل معلومات نہیں ملتیں۔ مثال کے طور پر ان سوالات کے جواب نہیں ملتے: طبی اور جراحی اسقاط حمل میں کیا فرق ہے؟ اس عمل کے بعد دیکھ بھال کے کیا درست اور ممکنہ طریقے ہو سکتے ہیں اوراس کے ممکنہ ضمنی اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟

Published: undefined

ویرینا کہتی ہیں، ''جب آپ گوگل پر ابارشن کے بارے میں سرچ کرتے ہیں تو آپ کو ایسی ویب سائٹوں پر لے جایا جاتا ہے جو آپ کو خبردار کرتی ہیں کہ آپ یقینی طور پر ڈپریشن، صدمے کا شکار ہیں اور آپ بانجھ ہو سکتے ہیں۔ یہ کوئی طبی مشورہ نہیں ہے، یہ صرف آپ کو دنیا کے بدترین شخص کی طرح محسوس کراتا ہے۔‘‘

Published: undefined

تولیدی حقوق کی تنظیم ڈاکٹرز فار چوائس جرمنی کے ماہر امراضِ نسواں یانا میئفرٹ کا کہنا ہے کہ معلومات کی کمی مریضوں کے لیے سنگین حالات پیدا کر سکتی ہے، ان مریضوں کو بہت دیر سے پتہ چلتا ہے کہ کلینک وہ خدمات پیش نہیں کرتا جس کی وہ تلاش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، ڈاکٹر اپنی ویب سائٹ پر یہ نہیں بتا سکتے کہ کیا وہ طبی یا جراحی اسقاط حمل کی پیشکش کرتے ہیں یا دونوں کر سکتے ہیں۔

Published: undefined

اسقاط حمل تک محدود رسائی

اسقاط حمل کرنے کے لیے، ڈاکٹر کو ایک سرٹیفکیٹ دیکھنا ہوتا ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ حاملہ عورت نے کم از کم تین دن پہلے ریاست سے منظور شدہ کونسلنگ سینٹر میں مشاورت حاصل کی ہے۔ اس مشاورت کی پیشکش کرنے والی متعدد تنظیمیں ہیں اور اس کونسلنگ کے دوران عورت کو اس کے اختیارات کے بارے میں مطلع کرتی ہیں۔

Published: undefined

ویرینا نے کہا کہ لازمی مشاورت کے لیے وقت حاصل کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں اس مشاورت کے لیے یکے بعد دیگرے کئی کالز کرنی پڑیں تھیں۔ اس پورے عمل میں اتنا وقت لگ سکتا ہے کہ حاملہ خاتون ابارشن کے لیے طے مقررہ وقت سے تجاوز کر سکتی ہے۔

Published: undefined

کئی جرمن خواتین کے لیے مشاورتی ملاقات اور ڈاکٹر تلاش کرنا بہت مشکل امر ہے۔ سن 2003 کے بعد سے جرمنی میں اسقاط حمل کرنے کے لیے تیار ڈاکٹروں کی تعداد میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے- ملک میں اب صرف 1,200 ایسی جگہیں ہیں جہاں خواتین ابارشن کروا سکتی ہیں۔ 20 سال پہلے تک یہ 2000 کے قریب تھے۔

Published: undefined

ڈاکٹر یانا مائیفرٹ نے کہا، ''جرمنی میں اسقاط حمل ایک ممنوع موضوع ہے، حتی کہ مریضوں اور ڈاکٹروں کے لیے بھی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''اگر آپ ایک چھوٹے شہر میں کلینک چلاتے ہیں، تو آپ حمل کو ختم کرنے کی پیشکش نہ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں کیونکہ اس کے بعد آپ کو اس چھوٹی کمیونٹی میں 'اسقاط حمل ڈاکٹر' کا نام دیا جا سکتا ہے۔‘‘

Published: undefined

’’جرمنی میں 10 میں سے صرف ایک گائناکالوجسٹ اسقاط حمل کرتا ہے،‘‘ ڈاکٹر مائیفرٹ نے کہا، ''ضروری نہیں کہ وہ اس کے خلاف ہوں، بلکہ اس لیے کہ رکاوٹیں بہت زیادہ ہیں۔‘‘ مائیفرٹ کے مطابق کچھ مریضوں کو ڈاکٹر تلاش کرنے کے لیے 150 کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر دیہی اور کیتھولک علاقوں، جیسے کہ باویریا میں۔ لیکن کچھ بڑے شہروں میں بھی صورت حال نازک ہے۔

Published: undefined

مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق شٹٹ گارٹ میں ایک بھی ہسپتال اسقاط حمل کی پیشکش نہیں کرتا۔ میونسٹر شہر میں، حمل کے خاتمے کی پیشکش کرنے والا آخری ڈاکٹر 2019 میں ریٹائرمنٹ میں چلا گیا۔

Published: undefined

اسقاط حمل کی شرح 25 سال کی کم ترین سطح پر

قانونی اسقاط حمل فراہم کرنے والے اداروں کی تعداد میں کمی کے ساتھ ساتھ اسی تناسب سے بہت کم خواتین ان سروسز سے مستفید ہوئی ہیں۔

Published: undefined

سال 2021 میں جرمنی میں 1996 کے بعد اسقاط حمل کی سب سے کم شرح دیکھی گئی۔ اس موضوع پر پہلے سال کے اعداد و شمار جمع کیے گئے۔ وفاقی دفتر شماریات کے مطابق، 2021 میں تقریباً 94,000 اسقاط حمل کیے گئے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 5.4 فیصد کم ہیں۔

Published: undefined

جرمنی میں کچھ ڈاکٹر اب ایک ٹیلی میڈیسن پروجیکٹ میں طبی اسقاط حمل کے لیے درکار گولیاں بھی تجویز کر رہے ہیں جہاں حاملہ خاتون ڈاکٹر کی نگرانی میں گھر پر دوائیں لیتی ہے تاکہ اسقاط حمل بھی ہو جائے اور سرجری کی ضرورت نا پڑے۔

Published: undefined

لہذا جرمنی میں حمل کو ختم کرنے کے کئی طریقے ہیں، لیکن تمام معلومات حاصل کرنا اور پہلے 12 ہفتوں کے اندر طریقہ کار کو مکمل کرنا آسان نہیں ہے۔

Published: undefined

لیکن ایک بار جب نئی حکومت پیراگراف 219 اے کو ختم کرنے کے اپنے ارادے کو پورا کرتی ہے تو یہ صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹروں کو اسقاط حمل کی خواہشمند خواتین کے لیے انٹرنیٹ پر جامع، طبی لحاظ سے درست معلومات شائع کرنے کی اجازت ہو گی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined