سماج

اقتصادی بوجھ، رحم مادر میں ہی بچیوں کا قتل

شمالی بھارت کےایک علاقے میں مائیں صرف لڑکوں کو ہی جنم دے رہی ہیں۔ یوں یہ شک ہو چلا ہے کہ وہاں بچیوں کی جنس کا علم ہونے کے بعد والدین انہیں رحمِ مادر میں ہی قتل کر دیتے ہیں۔

اقتصادی بوجھ، رحم مادر میں ہی بچیوں کا قتل
اقتصادی بوجھ، رحم مادر میں ہی بچیوں کا قتل 

شمالی بھارت کے ایک علاقے میں گزشتہ تین ماہ کے دوران پیدا ہونے والے تمام لڑکے ہی تھے۔ ایک سروے سے یہ شک ہوا ہے کہ اتراکھنڈ کی ریاست کے متعدد گاؤں میں بچی کی جنس کا علم ہونے کے بعد انہیں پیدائش سے قبل ہی ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ ناقدین نے اس گھناؤنے عمل کے لیے پدرانہ سوچ اور ٹیکنالوجی کو قصور وار قرار دیا ہے۔

Published: undefined

ہمالیہ کے دامن میں واقع ریاست اتراکھنڈ سخت موسموں کی حوالے سے مشہور ہے۔ وہاں خواتین روزمرہ کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ گھر کے کام کے علاوہ وہ علاقائی معیشت میں بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ تاہم پدرانہ سوچ کے باعث اس ریاست میں لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔

Published: undefined

بھارت میں سن 2011 میں کرائی گئی مردم شماری کے مطابق اتراکھنڈ میں لڑکیوں کی پیدائش کے عمل میں واضح کمی نوٹ کی گئی ہے۔ ایک حکومتی سروے کے مطابق اس ریاست کے 132 گاؤں میں گزشتہ تین مہینے کے دوران 214 بچے پیدا ہوئے، جن میں سے ایک بھی لڑکی نہیں تھی۔

Published: undefined

اتراکھنڈ میں ریاستی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن وجے بارتھوال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ ابتدائی طور پر معلومات موصول ہوئی تھیں کہ ان دیہات میں کچھ لڑکیاں بھی پیدا ہوئی تھیں لیکن ان اعدادوشمار کی پڑتال کی ضرورت ہے۔ تاہم کچھ ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش نہ ہونے کی وجہ دراصل ان کی جنس کا علم ہونے کے بعد رحم مادر میں ان کا قتل ہے۔

Published: undefined

لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت

Published: undefined

خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک صرف اتراکھنڈ کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ کئی ہمسایہ ریاستوں میں بھی یہ مسئلہ شدید ہے۔ بھارتی معاشرے میں لڑکوں کو وارث تصور کیا جاتا ہے۔ اس قدامت پسند معاشرے میں مذہبی روایات بھی لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ خیال عام ہے کہ اگر بیٹا والدین کی چتا کو آگ دیتا ہے اور اس کی استھیاں دریائے گنگا میں بہاتا تو وہ جنت میں ہی جائیں گے۔

Published: undefined

بھارتی شہر رانچی کے ژاویئر انسٹی ٹیوٹ برائے معاشرتی علوم سے وابستہ ماہر سماجیات پرمل کمار پانڈے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارت میں خواتین کو مردوں کا ماتحت سمجھا جاتا ہے۔ پرمل کمار پانڈے کا کہنا ہے، ''بچیوں کو ہمیشہ ہی دوسرے گھر کی جائیداد سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے یہ سوچا ہی نہیں جاتا کہ وہ بھی کنبے کی جائیداد میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔‘‘

Published: undefined

ٹیکنالوجی بھی ذمہ دار

Published: undefined

صحافی اور اتراکھنڈ کی ثقافتوں اور زبانوں پر کئی کتب کے مصنف جئے سنگھ راوٹ کے مطابق اقتصادی ترقی نے اس ریاست کے صنفی مسائل کو دوچند کر دیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ اس ریاست میں مرد شادی کرنے کی خاطر 'بیوی کی قیمت‘ لگاتے تھے جبکہ اب یہ مرد اور ان کے گھرانے شادی کی خاطر بڑے جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں۔

Published: undefined

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی وجوہات ہیں کہ ایسے گھرانوں پر اقتصادی بوجھ بڑھ گیا ہے، جہاں بچیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لیے لوگ مجبور ہیں کہ وہ جنس کی بنیاد پر اسقاط حمل کرا لیں۔ راوٹ کے بقول علاقائی انفراسٹرکچر میں بہتری کی وجہ سے ذرائع آمدورفت بھی بہتر ہوئے ہیں، اس لیے لوگ چھوٹے چھوٹے دیہات سے نکل کر شہروں میں جاتے ہیں اور نامولود بچوں کی جنس معلوم کرنے کی غیرقانونی کوشش کرتے ہیں اور لڑکی ہونے کی صورت میں حمل گروا دیتے ہیں۔

Published: undefined

جیے سنگھ راوٹ نے مزید بتایا کہ کچھ کیسوں میں موبائل الٹرا ساؤنڈ مشینیں دیہات میں کچھ دنوں کے لیے لائی جاتی ہیں اور پہلے سے اعلان کر دیا جاتا ہے کہ اگر کسی نے بچے کی جنس معلوم کرنا ہے تو وہ بکنگ کروا لیں۔ انہوں نے کہا کہ اس تمام مرحلے میں طبی اہلکار اپنا کمیشن لیتے ہیں۔ الٹرا ساؤنڈ کی مدد سے جب والدین کو اپنے نامولود بچوں کی جنس کا علم ہوتا ہے تو لڑکی ہونے کی صورت میں وہ قریبی شہر جا کر دنیا میں آنے سے قبل ہی بچی کو مادر رحم میں قتل کر دیتے ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق غریب خاندان اس غیرقانونی کام کی خاطراکثر قرض بھی لیتے ہیں۔

Published: undefined

سماجی رویے صنفی امتیاز کا باعث

Published: undefined

سن 2013 میں شائع کردہ ایک حکومتی رپورٹ کے مطابق 'بیٹوں کو ترجیح‘ دینے کا رویہ پیدا ہونے والی بچیوں کی کم عمری میں ہلاکت کا باعث بھی بنتا ہے۔ پاپولیشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق بھارت میں سن 2000 تا سن 2014 جنس کی بنیاد پر ہونے والے اسقاط حمل کے کیسوں کی تعداد کم ازکم ایک کروڑ ستائیس لاکھ رہی۔

Published: undefined

معاشرتی امور کے ماہر پرمل کمار کے مطابق خواتین کے بارے میں سماجی رویوں میں تبدیلی میں طویل وقت درکار ہو گا، اسی لیے تحفظ خواتین کے لیے بنائے گئے قوانین مؤثر ثابت نہیں ہو رہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined