قومی خبریں

راہل گاندھی کی تقریر پر اتنی بوکھلاہٹ کیوں؟... سہیل انجم

مبصرین نے جتنے تبصرے ان کی اس تقریر پر کیے ہیں اتنے کسی اور تقریر پر نہیں کیے۔ ان کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ راہل گاندھی کی پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر اب تک کی سب سے اچھی تقریر تھی۔

راہل گاندھی، تصویر یو این آئی
راہل گاندھی، تصویر یو این آئی 

کانگریس کے سینئر رہنما، سابق صدر اور رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں جو تقریر کی اس کی صدائے بازگشت ملک و بیرون ملک میں ابھی تک سنی جا رہی ہے۔ مبصرین نے جتنے تبصرے ان کی اس تقریر پر کیے ہیں اتنے ان کی کسی اور تقریر پر نہیں کیے گئے۔ ان کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ راہل گاندھی کی یہ پارلیمنٹ میں کی گئی ان کی اب تک کی سب سے اچھی تقریر تھی۔ انھوں نے جس طرح ملک کے موجودہ حالات پر تبصرہ کیا وہ بالکل برحق تھا اور انھوں نے حکومت، اس کی خارجہ پالیسی اور وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا وہی مبنی بر حقیقت ہے۔

Published: undefined

لیکن اس تقریر کی وجہ سے جانے کیوں حکومت اور بی جے پی پر بوکھلاہٹ طاری ہو گئی ہے۔ حکومت اور بی جے پی کے لوگ ان پر ٹوٹ پڑے ہیں اور ان کو بدنام کرنے کی مہم میں مصروف ہو گئے ہیں۔ اس محاذ پر حکومت کے وزرا بھی سرگرم ہو گئے اور پارٹی کے عہدے دار بھی اور بی جے پی کا آئی ٹی سیل بھی اور دو روپے پر ٹوئٹ کرنے والے ٹرولر بھی۔ لیکن راہل گاندھی نے جو کچھ کہا ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ حکومت اور بی جے پی کی جانب سے راہل گاندھی کو غیر اہم بتانے اور بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اس کے باوجود وہ ان کی باتوں کو نظرانداز کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت راہل گاندھی تنہا ایسے لیڈر ہیں جو بی جے پی، حکومت اور آر ایس ایس پر اس طرح کھل کر جارحانہ حملے کر رہے ہیں اور ان کے ان حملوں سے مخالف خیمہ بلبلا کر رہ جاتا ہے۔

Published: undefined

راہل گاندھی نے پاکستان اور چین کے حوالے سے جو باتیں کہیں آزاد اور غیر جانبدار مبصرین اس کی تائید کرتے ہیں۔ راہل نے کہا کہ حکو مت کی خارجہ پالیسی بری طرح ناکام ہے اور اس ناکامی کی وجہ سے ہی چین اور پاکستان ایک دوسرے کے کافی قریب آگئے ہیں۔ ان کے مخالفین کی دلیل ہے کہ دونوں ملک 1947 سے ہی ایک دوسرے کے قریب رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ دونوں ملک قریب رہے ہیں لیکن اب جس طرح دونوں ایک دوسرے کے نزدیک آگئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ مودی حکومت نے جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کو منسوخ کرکے اور اسے مرکز کے زیر انتظام دو خطوں میں تبدیل کرکے دراصل چین کو لداخ میں داخل ہونے کا موقع دے دیا۔

Published: undefined

ان کے مطابق چین کا کہنا ہے کہ لداخ میں ہندوستان کے ساتھ اس کی کوئی سرحد نہیں تھی لیکن ہندوستان نے لداخ کو ایک خطہ قرار دے کر کاغذ پر ایک سرحد بنا دی اور اس کے ردعمل میں ہی چینی فوج لداخ میں آکر بیٹھ گئی۔ راہل گاندھی اسی جانب اشارہ کر رہے تھے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ابھی تک صرف پاکستان جموں و کشمیر پر اپنا دعویٰ کرتا تھا لیکن اب چین لداخ میں آگیا ہے۔ حالانکہ 2020 میں ہندوستانی اور چینی افواج کے درمیان خونی جھڑپ کے بعد جس میں ہندوستان کے بیس فوجی ہلاک ہوئے تھے اور اب آسٹریلیا کے ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق چین کے کم از کم چالیس فوجی ہلاک ہوئے تھے، وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ نہ تو کوئی ہندوستانی علاقے میں آیا نہ وہاں موجود ہے اور نہ ہی کسی نے قبضہ کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے یہ کہہ کر چین کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ ہماری طرف سے کوئی مزاحمت نہیں کی جائے گی۔

Published: undefined

راہل گاندھی بار بار حکومت سے سوال کرتے رہے ہیں کہ وہ چین کے خلاف سخت کارروائی کیوں نہیں کرتی۔ انھوں نے بارہا یہ بات کہی کہ چین نے ہندوستان کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس پر حکومت اور بی جے پی کی جانب سے ماضی کی مثالیں دی جاتی رہیں اور کہا جاتا رہا کہ چین تو بہت پہلے سے ہندوستان کے ہزاروں کلومیٹر کی زمین پر قابض ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس نے پہلے قبضہ کیا تھا تو کیا اس سے اس کو یہ جواز مل جاتا ہے کہ وہ ہندوستان کی مزید زمین پر قبضہ کر لے کوئی کچھ نہیں بولے گا۔ راہل گاندھی نے جب اپنی تقریر میں اس پر رائے دی تو بی جے پی تلملا اٹھی۔

Published: undefined

راہل گاندھی نے یہ بھی کہا کہ آج دو ہندوستان ہیں ایک امیروں کا اور دوسرا غریبوں کا۔ جب سے یہ حکومت آئی ہے امیر اور امیر اور غریب اور غریب ہوتے جا رہے ہیں۔ دراصل اس حکومت کی پالیسی ہی سرمایہ داروں کے مفاد میں ہے۔ وہ جو بھی پالیسی بناتی ہے امیروں کو مزید امیر بنانے کے لیے بناتی ہے۔ اس کے نتیجے میں غریب اور غریب ہوتے جا رہے ہیں۔ راہل گاندھی نے پارلیمنٹ میں جس طرح امبانی اور اڈانی کے نام لیے وہ بڑی جرأت کی بات تھی۔ یوں تو عوام میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ اس حکومت میں امبانی اور اڈانی کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے لیکن ابھی تک کسی نے پارلیمنٹ میں ان دونوں کے نام نہیں لیے تھے۔ پہلی بار راہل گاندھی نے ان دونوں کے نام لیے اور بتایا کہ دراصل انہی دونوں کو حکومت فائدہ پہنچا رہی ہے۔ اور یہ بات درست بھی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان دونوں کی دولت میں گزشتہ سات برسوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اڈانی کے ہاتھوں بندرگاہ بیچے جا رہے ہیں۔ ایئر پورٹ بیچے جا رہے ہیں اور جانے کیا کیا بیچا جا رہا ہے۔

Published: undefined

راہل گاندھی نے یہ بھی کہا کہ موجودہ وزیر اعظم ایک منتخب وزیر اعظم کے بجائے ایک راجہ کی مانند کام کر رہے ہیں۔ ان کی یہ بات بھی غلط نہیں ہے۔ بار بار یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ نریندر مودی جو بھی فیصلہ کرتے ہیں تن تنہا کرتے ہیں۔ وہ نہ تو اپنی کابینہ کے کسی وزیر سے مشورہ کرتے ہیں اور نہ ہی پارٹی میں کسی عہدے دار سے کرتے ہیں۔ انھوں نے اب تک جو بھی فیصلے کیے ہیں سب از خود کیے ہیں۔ چاہے وہ نوٹ بندی کا فیصلہ ہو یا جی ایس ٹی یا دوسرے فیصلے۔ اس کے علاوہ ملک کے عوام مہنگائی سے پریشان ہیں اور نوجوان بے روزگاری سے پریشان ہیں لیکن ان کی باتیں سننے والا کوئی نہیں ہے۔

Published: undefined

سابقہ حکومتوں کے دوران ہوتا یہ رہا ہے کہ جب بھی کوئی اہم معاملہ ہوتا یا ہنگامی حالات ہوتے تو حکومت کل جماعتی میٹنگ بلاتی یا اپوزیشن کی پارٹیوں کو مدعو کرتی اور ان کے ساتھ میٹنگ کرکے صورت حال کا جائزہ لیتی اور ان کے مشورے سے فیصلے کرتی۔ لیکن یہ حکومت اس کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ وزیر اعظم تن تنہا سارے فیصلے کرتے ہیں۔ یا پھر وہ وزیر داخلہ امت شاہ سے مشورہ کر لیتے ہیں۔ باقی کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ریاستوں کے بارے میں فیصلے کرتے وقت بھی ریاستی حکومتوں سے کوئی مشورہ نہیں کیا جاتا۔ جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ریاستوں سے بھی مشورے کرے۔

Published: undefined

راہل گاندھی نے اور بھی ایسی کئی باتیں کہیں جو حکومت اور بی جے پی کے تلملانے کے لیے کافی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے حکومت اور بی جے پی کی دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سبھی اچھل پڑے ہیں اور راہل گاندھی کو غیر اہم بنانے کی مہم میں ایک بار پھر تیزی آگئی ہے۔ لیکن حکومت کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اپوزیشن لیڈر ہیں اور ان کی حیثیت کسی وزیر سے کم نہیں ہے۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ اپوزیشن کی آواز ہوتی ہے اور اس آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined