قومی خبریں

لکھنؤ: ’حکومت انسانیت سے ’کھلواڑ‘ کر رہی ہے، اسے محبت سے نفرت ہے‘

’’ہمارے بچے ہمارے ساتھ خراب موسم میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہیں جو تکلیف دہ ہے، لیکن ہم سمجھ گئے ہیں کہ اگر اب تاناشاہی کے خلاف نہیں لڑیں گے تو ہمارے ان معصوم بچوں کا مستقبل خراب ہو جائے گا۔‘‘

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز 

سمیہ رانا 48 سال کی ہیں۔ وہ پوری دنیا میں مشہور و مقبول شاعر منور رانا کی بیٹی ہیں۔ سمیہ جمعہ کی دوپہر 4 بجے سے پرانے لکھنؤ واقع گھنٹہ گھر کے پاس دھرنے پر بیٹھی ہیں۔ وہ رات بھر یہیں بیٹھی رہیں، صبح اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے گھر چلی گئیں تھیں، اور اب پھر لوٹ کر یہیں بیٹھ گئی ہیں۔ سمیہ کے ساتھ یہاں سینکڑوں خواتین نظر آ رہی ہیں۔ جمعہ کی شب یہ تعداد 100 تھی لیکن صبح کے بعد اس میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ سمیہ رانا ’قومی آواز‘ کو بتاتی ہیں کہ ’’اب میں یہاں سے لوٹ کر نہیں جانے والی۔ بات وجود کی ہے، مسلمانوں کے وجود کو چیلنج کیا گیا ہے۔ یہ ملک سیکولر ہے۔ یہاں سبھی مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔ یہاں دیوالی اور عید مل جل کر منائی جاتی ہے۔ ملک کی آزادی کے لیے اگلی صف میں لڑنے والی پوری ایک قوم کو الگ تھلگ کرنے کی جو کوشش ہو رہی ہے، اسے ہم کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ہم لوگوں کو بنٹنے نہیں دیں گے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’ہم نے طے کیا ہے کہ ہم پرانے لکھنؤ کی اس تاریخی زمین پر اس وقت تک بیٹھے رہیں گے جب تک کہ حکومت مسلمانوں کے ساتھ تفریق کرنے والے اس شہریت ترمیمی قانون کو واپس نہیں لے لیتی۔‘‘

Published: undefined

شہریت قانون کے خلاف یہ مظاہرہ لکھنؤ کے حسین آباد علاقے میں بڑے امام باڑہ کے پاس گھنٹہ گھر پر ہو رہا ہے اور یہاں جمعہ کو روز جمع ہوئی خواتین پرعزم اور باحوصلہ نظر آ رہی ہیں۔ دھرنے پر بیٹھی محض 15 سال کی گیارہویں میں پڑھنے والی شبیہ فاطمہ بھی کسی طرح کمزور نظر نہیں آ رہی۔ وہ کہتی ہے کہ ’’پی ایم، سی ایم کو کچھ لوگ چنتے ہیں، لیکن وہ ہوتے سبھی کے لیے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری حکومت کو لگ رہا ہے کہ جنھوں نے ان کو ووٹ نہیں دیا ہے ان سے بدلہ لیا جانا چاہیے اور وہ ایسا کر رہے ہیں۔‘‘ وہ آگے کہتی ہے کہ ’’حکومت کو یہ شہریت قانون واپس لینا چاہیے کیونکہ یہ ملک میں آنے والے غیر مسلموں کو شہریت دینے کی حمایت کرتا ہے جب کہ مسلموں کو نہیں۔ یہ یقیناً مسلمانوں کے ساتھ تفریق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مسلمان خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

دھرنے پر بیٹھی خواتین دعویٰ کر رہی ہیں کہ اب وہ یہاں سے تبھی ہٹیں گی جب شہریت قانون واپسی کا اعلان ہوگا۔ ورنہ پولس ان کے ساتھ کسی بھی طرح کی زیادتی کرے، وہ پیچھے ہٹنے والی نہیں۔ قابل غور ہے کہ پرانے لکھنؤ کے اس علاقے میں 19 دسمبر کو سب سے زیادہ تشدد ہوا تھا۔ پولس پر یہاں کئی طرح کے الزام لگے تھے۔ کل (جمعہ) رات بھی پولس آئی اور لکھنؤ کے نئے پولس کمشنر سجیت پانڈے بھی انھیں سمجھانے کے لیے پہنچے لیکن خواتین اپنا مظاہرہ ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئیں۔

Published: undefined

دھرنے پر بیٹھی ایک خاتون فرحہ نے بتایا کہ ’’پولس نے ہماری بجلی کاٹ دی اور الاؤ جلانے سے روک دیا۔ ہماری فیملی کے جو لوگ ہمیں دینے کے لیے لحاف اور گرم کپڑے لائے تھے، پولس نے انھیں خوب ڈانٹا۔ پولس کہہ رہی تھی کہ دفعہ 144 لگی ہوئی ہے اس لیے بھیڑ جمع نہیں ہو سکتی۔‘‘ انھوں نے سوال اٹھایا کہ ’’ہم پوچھ رہے ہیں کیا یہ دفعہ 144 بھی صرف ہمارے لیے ہی ہے؟ یہ لوگ جو سینکڑوں موٹر سائیکل لے کر لکھنؤ میں ریلی نکال رہے ہیں، ان کے لیے نہیں ہے؟‘‘

Published: undefined

لکھنؤ کے پریورتن چوک سے حراست میں لی گئی اور پھر کافی ہنگامے کے بعد آزاد ہوئی سماجی کارکن صدف جعفر بھی اس دھرنے کے مقام پر مظاہرین سے ملاقات کے لیے پہنچیں۔ ان کی آمد سے دھرنے پر بیٹھی خواتین کا حوصلہ کافی بلند ہوا۔ ریحانہ نامی خاتون نے کہا کہ ’’ہمیں ان سے بہت ہمت ملی ہے۔ وہ بہت بہادر ہیں، پولس نے ان کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ ہم بھی پولس سے نہیں ڈریں گے۔ قانون واپسی تک یہیں رہیں گے۔‘‘

Published: undefined

جمعہ کی دوپہر سے ہی گھنٹہ گھر کے دھرنے میں شامل نسرین جاوید بھی ’قومی آواز‘ سے بات کرتے ہوئے پرعزم نظر آئیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ حکومت لگاتار انسانیت کے ساتھ ’کھلواڑ‘ کر رہی ہے، انھیں محبت سے نفرت ہے۔ جو لوگ شہریت قانون کی حمایت کرتے ہیں اور بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں، ان کے سب گناہ معاف ہیں اور جو ان (بی جے پی) کو ووٹ نہیں دیتے ان کی شہریت چھین لینے کی سازش ہو رہی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’حکومت کی نیت صاف ظاہر ہو رہی ہے۔ یہ کھلے عام اعلان کر کے بدلہ لے رہے ہیں۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہمارے ساتھ خراب موسم اور سردی میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہیں جو ہمارے لیے تکلیف دہ ہے، لیکن ہم سمجھ گئے ہیں کہ اگر اب ان کی تاناشاہی کے خلاف نہیں لڑیں گے تو ہمارے ان معصوم بچوں کا مستقبل خراب ہو جائے گا۔ اب ہم نے طے کیا ہے کہ جئیں گے بھی یہیں اور مریں گے بھی یہیں۔‘‘

Published: undefined

کچھ لوگ لکھنؤ کے دھرنے کو دہلی کے ’شاہین باغ‘ والے دھرنے سے ترغیب حاصل کر کے شروع کیا گیا مظاہرہ ٹھہرا رہے ہیں۔ شاہین باغ کی ہی طرح لکھنؤ کے دھرنے میں بھی بچوں کی ایک بڑی تعداد دیکھنے کو مل رہی ہے۔ سبھی کے ہاتھ میں شہریت قانون اور این آر سی و این پی آر کے خلاف پوسٹر موجود ہیں۔ سمیہ رانا ایک دور اندیش خاتون کی طرح کہتی ہیں کہ ’’بات نیت کی ہے۔ ہمارے بچے دوسرے درجے کے شہری بنا دیئے جائیں گے تو ملازمت میں بھی تفریق ہوگی۔ ویسے بھی حکومت مفاد عامہ میں کوئی کام نہیں کر پا رہی۔ مثلاً ملک کی معیشت ڈوب رہی ہے، مہنگائی عروج پر ہے اور حکومت خاموش ہے۔ پیاز مہنگی ہو رہی ہے، کسان خودکشی کر رہے ہیں، بے روزگاری بڑھ رہی ہے... بے شمار مسائل ہیں لیکن حل تلاش نہیں کیے جا رہے۔ یہ (بی جے پی) ہر بات میں فرقہ واریت کا نظریہ تلاش کرتے ہیں۔ یہ لوگ ملک کی اتحاد و سالمیت کے لیے خطرہ ہیں۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined