قومی خبریں

خوفناک وقت میں اجنبی کشمیریوں نے ہر لمحہ حفاظت کی، پہلگام حملہ کی متاثرہ کی حقیقت بیانی

کوچی کی رہنے والی آرتی نے پہلگام سے واپس آنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے خوفناک منظر کے بارے میں بتایا۔ اس حملے میں ان کے والد این رام چندرن (65) کی بھی موت ہوئی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر ’انسٹا گرام‘</p></div>

تصویر ’انسٹا گرام‘

 

پہلگام حملے کے بعد پورے ملک میں غم کا ماحول ہے۔ اس حملے میں 26 لوگوں نے اپنی جان گنوائی ہے۔ رفتہ رفتہ اب اس سے جڑے متاثرین کی درد بھری داستان بھی سامنے آنے لگی ہے۔ اس حملے میں جان گنوانے والے لوگوں میں کوچی کی رہنے والی آرتی مینن کے والد این رام چندرن (65) بھی شامل تھے۔ آرتی نے پہلگام سے واپس آنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے خوفناک منظر کے بارے میں بتایا۔

Published: undefined

آرتی نے میڈیا سے سے حملے کے وقت کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’پہلے تو ہمیں لگا کہ یہ پٹاخے کی آواز ہے لیکن اگلی ہی گولی چلنے پر پتہ چل گیا کہ یہ دہشت گردانہ حملہ ہے۔‘‘

آرتی کے والد اور ان کے چھ سال کے جڑواں بیٹے بیسرن میں ایک باڑے سے گھِرے گھاس کے میدان سے گزر رہے تھے۔ تبھی دہشت گردوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ ان کی والدہ شیلا کار میں ہی بیٹھی رہیں۔

Published: undefined

انہوں نے بتایا، ’’ہم بھاگنے کے لیے باڑ کے نیچے رینگ گئے۔ لوگ سبھی سمت میں بکھر گئے۔ جب ہم آگے بڑھ رہے تھے تو ایک آدمی جنگل سے نکل کر آیا۔ اس نے سیدھے ہماری طرف دیکھا۔ اس اجنبی نے کچھ ایسے لفظ بولے جو وہ سمجھ نہیں پائے۔ ہم نے جواب دیا، ہمیں نہیں پتہ۔ اگلے ہی لمحہ اس نے گولی چلا دی۔ میرے والد ہمارے بغل میں گر پڑے۔ میں نے دو لوگوں کو دیکھا، لیکن انہوں نے کسی فوجی کی وردی نہیں پہنی ہوئی تھی۔‘‘

Published: undefined

ایجنسی کے مطابق آرتی نے بتایا کہ وہ لوگ تقریباً ایک گھنٹے تک جنگل میں بھٹکتے رہے۔ انہوں نے کہا، ’’میرے بیٹے چلّانے لگے اور وہ آدمی بھاگ گیا۔ مجھے پتہ تھا کہ میرے والد چلے گئے ہیں۔ میں نے بچوں کو ساتھ لیا اور وہاں سے نکل گئی۔ جنگل میں، مجھے نہیں پتہ تھا کہ میں کہاں جا رہی ہوں۔ جب میرا فون سگنل غائب ہو گیا تو میں نے اپنے ڈرائیور کو کال کیا۔

Published: undefined

آرتی نے بتایا کہ ایسے خوفناک وقت میں کشمیر کے اجنبی لوگوں سے بہت ہمدردی ملی اور اِنہوں نے اپنے کنبے جیسا سلوک کیا۔ آرتی نے یاد کرتے ہوئے آگے کہا، ’’میرا ڈرائیور مسافر اور ایک دیگر شخص سمیر میرے بھائی بن گئے۔ وہ ہر لمحہ میرے ساتھ کھڑے رہے، مجھے مورچری لے گئے، ہماری مدد کی۔ میں وہاں 3 بجے تک انتظار کرتی رہی۔ انہوں نے ایک بہن کی طرح میری دیکھ بھال کی۔‘‘

جب آرتی سری نگر سے واپس آنے لگیں تو مدد کرنے والے ان دونوں سے انہوں نے کہا کہ ’’اب کشمیر میں میرے دو بھائی ہیں، اللہ آپ دونوں کی حفاظت کرے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined