قومی خبریں

ہاتھرس معاملہ: کل وہ میرے خواب میں آئی تھی، چارپائی پر بیٹھی چائے پی رہی تھی، متاثرہ کی والدہ کا درد

42 سالہ کرشن دت شرما کہتے ہیں کہ گاؤں پر منحوسیت کا سایا پڑ گیا ہے۔ ساری دنیا میں شادیاں ہو رہی ہیں لیکن ہمارے گاؤں کے چار رشتہ ٹوٹ گئے ہیں۔ گاؤں پر داغ جو لگ گیا ہے۔

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد 

جیسے تھرما میٹر سے پتہ چل جاتا ہے کہ کتنا بخار ہے کاش ہمارے پاس بھی کوئی ایسا آلہ ہوتا جس سے یہ پتہ لگ جاتا کہ بلگڑھی میں ملے اس 50 سالہ شخص کے دماغ میں کیا چل رہا ہے، جس نے پہلے اپنا نام مہیندر بتایا، 15 منٹ کی گفتگو کے دوران اس نے اپنا نام رمیش بتایا اور جب جاتے جاتے اس کا نام پوچھا تو اس نے اپنا نام وجے بتایا۔

Published: 21 Dec 2020, 12:10 PM IST

خیر وہ جو کہہ کر گیا وہ بات تو ہمارے دماغ میں ابھی بھی گونج رہی ہے۔ یہ اسی انجان شخص نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ بھی اسی بلگڑھی گاؤں کا ہے۔ تین بار نام بدلنے والے اس شخص نے ایک بات بالکل صاف کہی کہ نہ تو وہ ٹھاکر ہے اور نہ ہی دلت مگر لڑکی کے ساتھ برا ہوا۔ پورا گاؤں جانتا ہے کہ ’’یہ لڑکا اس لڑکی کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔‘‘ 600 افراد کی آبادی والے اس چھوٹے سے گاؤں میں کوئی بات کسی سے چھپتی نہیں ہے۔ وہ لڑکی پڑھائی لکھائی اور شکل و صورت سے اسمارٹ تھی۔ وہ اس پر’قبضہ‘ کرنا چاہتا تھا۔ لڑکی پر اپنا حق سمجھتا تھا۔ ایک بار پنچایت بھی ہوئی تھی، لیکن وہ مان ہی نہیں رہا تھا۔

Published: 21 Dec 2020, 12:10 PM IST

لڑکی نے مخالفت کی تو اس کی سزا کے طور پر یہ سب کچھ سکھایا گیا۔ تین مرتبہ نام بدلنے والے اس پراسرار شخص نے جو بات آگے بتائی اس نے تو پوری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس نے بتایا ’’وہ انہیں انسان نہیں سمجھ رہے تھے، سمجھتے تو کیا ایسا کرتے۔ اس معاملہ میں انصاف ہونا بہت ضروری ہے اور سی بی آئی کی جانچ ایک دم صحیح ہے۔‘‘یہ حقیقت پورا گاؤں جانتا ہے۔ آج کل ذات پات انصاف کے اوپر ہوگئی ہے۔

Published: 21 Dec 2020, 12:10 PM IST

علی گڑھ سے آگرہ جاتے وقت چندپا تھانے سے آدھا کلومیٹر دور یہ گاؤں ہے۔ بلگڑھی نام کے اس گاؤں کو داغی تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اس گاؤں پر ایسا داغ ضرور لگ گیا ہے کہ جو کبھی مٹ نہیں سکے گا۔ یہ داغ ایک لڑکی کی اجتماعی عصمت دری کے بعد اس کا قتل اور اندھیری رات میں اس کی میت کو اس کے گھر والوں کی عدم موجودگی میں آخری رسومات ادا کر نے سے لگا ہے۔ اس کو حزب اختلاف کی اور عالمی سازش قرار دینے والے اب خاموش بیٹھے ہیں۔ گاؤں کا اب عجیب ماحول ہے، کہیں کوئی چوپال نہیں، کہیں ایک ساتھ چار آدمی نظر نہیں آتے۔ کہیں کوئی حقہ نہیں اور اگر کسی کو یہ پتہ لگ جائے کہ رپورٹر ہے تو ایسے گھور کر دیکھتے ہیں جیسے کھا جائیں گے۔

Published: 21 Dec 2020, 12:10 PM IST

گاؤں کے 62 سالہ کرشن دت شرما کہتے ہیں کہ گاؤں پر منحوسیت کا سایا پڑگیا ہے۔ ساری دنیا میں شادیاں ہو رہی ہیں لیکن ہمارے گاؤں کے چار رشتہ ٹوٹ گئے ہیں۔ گاؤں پر داغ لگ گیا ہے۔ پتہ نہیں اب یہ گناہ کیسے دھلے گا۔ کرسشن دت سی بی آئی کی اس چارج شیٹ پر کوئی بات نہیں کرتے جس میں لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی بات کہی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں’’ گاؤں کی بہت بدنامی ہوئی ہے، بہت برا ہوا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، اس داغ کو دھلنے میں بہت وقت لگے گا۔‘‘

Published: 21 Dec 2020, 12:10 PM IST

پورا گاؤں چھاونی بنا پڑا ہے۔ گاؤں کے مرکزی داخلہ پر پہلا گھر سندیپ کا ہے۔ دنیا چھوڑ کر جاچکی متاثرہ لڑکی کے گھر کے باہر ریت کی بوریوں کے پیچھے مورچہ سنبھالے کمانڈو کھڑے ہیں۔ جدید بندوقوں کے ساتھ یہاں 125جوان تعینات ہیں۔ آنے والے ہر شخص کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ سی بی آئی کے ذریعہ چارج شیٹ داخل کiے جانے کے بعد صحافیوں کا آنا جانا پھر شروع ہوگیا ہے۔

Published: 21 Dec 2020, 12:10 PM IST

مرحومہ متاثرہ کی والدہ اور والد سے بات کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن بات چیت کے وقت پولیس آس پاس ہی رہتی ہے۔ پولیس والے صحافیوں سے کہتے ہیں کہ وہ کوئی بھی سوال پوچھ سکتے ہیں وہ تو بس ان کی حفاظت کے لئے یہاں ہیں۔ صحافی کے بھیس میں کوئی اور نہ آ جائے، اس لئے ہمیں تھوڑا ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ متاثرہ کی والدہ کچھ نہیں بولتیں لیکن والد کہتے ہیں ’’اب تو سب کو پتہ ہی لگ گیا ہے کہ کیا سچ ہے۔ ہماری لڑکی تو امر ہو گئی، مگر ہم زندہ مرگئے ہیں۔ غریب اور دلت کی بیٹی کی بھی عزت ہوتی ہے۔ ہماری عزت کو روندا گیا مگر ہمیں یقین ہے کہ ہماری بچی کو انصاف ملے گا اور ان حیوانوں کو پھانسی ہوگی۔‘‘

Published: 21 Dec 2020, 12:10 PM IST

متاثرہ کا بھائی کہتا ہے کہ اب ہم اس گاؤں میں نہیں رہنا چاہتے۔ اعلی ذات کے لوگوں نے ہم سے بات کرنا بند کر دیا ہے۔ یہاں دلتوں کے زیادہ ترخاندان والوں نے ہم سے فاصلہ بنالیا ہے۔ وہ ہم سے بات کرنے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں۔ گاؤں میں والمیکی سماج کے چار گھر ہیں جس میں ایک ہمارا ہے۔ ہم مزدوری کرنے نہیں جا رہے۔ اب ہماری اپنی کوئی زندگی نہیں رہی۔ ہم نے ڈی ایم کو ہٹانے کی مانگ کی تھی لیکن وہ ابھی تک یہیں ہیں۔ ہم سے نوکری اور مکان دونوں کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن کچھ نہیں ملا۔ متاثرہ کی والدہ کہتی ہیں ’’کل وہ (متاثرہ لڑکی) میرے خواب میں آئی تھی اور چارپائی پر بیٹھی ہوئی چائے پی رہی تھی۔‘‘

Published: 21 Dec 2020, 12:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 21 Dec 2020, 12:10 PM IST