قومی خبریں

دہلی: منڈی ہاؤس کے گول چکر واقع ’ننھے میاں چشتی درگاہ‘ اچانک غائب ہونے سے اٹھ رہے سوال، انتظامیہ کٹہرے میں

ننھے میاں چشتی درگاہ کو رات کی تاریکی میں بہت خاموشی کے ساتھ منہدم کرنے کی کارروائی ہوئی، درگاہ کے نگراں اکبر علی نے بتایا کہ حکام کی جانب سے ڈھانچہ ہٹانے سے متعلق کوئی نوٹس بھی نہیں دیا گیا۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

 

گزشتہ 25 اپریل یعنی منگل تک منڈی ہاؤس کے گول چکر واقع پارک میں ’ننھے میاں چشتی درگاہ‘ موجود تھا، پھر اچانک 26 اپریل کو لوگوں نے دیکھا کہ یہاں موجود مزار تو غائب ہے۔ اچانک مزار غائب ہونے اور ننھے میاں چشتی درگاہ کو ملبہ میں تبدیل کیے جانے پر سوال اٹھنے لگے جس کا اب تک جواب نہیں مل سکا ہے۔ حالانکہ انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ میں ایک خبر ضرور شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کئی صدی پرانی اس یادگار کو منہدم کیا گیا تاکہ دہلی جل بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو افسر کی کوٹھی کا راستہ بنایا جا سکے۔

Published: undefined

شہری حکام نے ننھے میاں چشتی درگاہ کو رات کی تاریکی میں بہت خاموشی کے ساتھ منہدم کرنے کی کارروائی کی۔ اس درگاہ کے ایک نگراں اکبر علی کے حوالے سے نیوز پورٹل ’دی وائر‘ نے لکھا ہے کہ حکام کی جانب سے ڈھانچہ ہٹانے سے متعلق کوئی بھی نوٹس نہیں دیا گیا تھا۔ اکبر علی کا کہنا ہے کہ ’’2 اگست 2022 کو کچھ افسران آئے تھے اور ٹائلس کے ساتھ ساتھ باؤنڈری والی دیوار وغیرہ کو ہٹا دیا تھا۔ لیکن 26 اپریل کو وہ اچانک صبح 3 بجے پہنچے اور سب کچھ نیست و نابود کر دیا۔‘‘

Published: undefined

اکبر علی کا کہنا ہے کہ انھیں اس بارے میں پختہ جانکاری نہیں کہ ایسا قدم کیوں اٹھایا گیا، لیکن لگتا ہے کہ حکام مزاروں اور درگاہوں کے خلاف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’شاید اس انہدامی کارروائی کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور وہ ہمیں اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔‘‘ ساتھ ہی اکبر علی کہتے ہیں کہ ’’ہم پہلے انسان ہیں اور پھر بعد میں مسلمان۔ ہم باہر سے نہیں آئے، ہندوستان کے ہی رہنے والے ہیں۔‘‘

Published: undefined

منہدم درگاہ کے ایک دیگر نگراں انور علی نے ’دی وائر‘ کو وہ کاغذات بھی دکھائے جن سے 1970 کی دہائی سے لینڈ ٹیکس ادا کیے جانے کا ثبوت ملتا ہے۔ گزشتہ تقریباً 45 سال سے ’ننھے میاں چشتی درگاہ‘ کو دیکھ رہے انور علی نے بتایا کہ یہ درگاہ کم از کم 250 سال قدیم تھا، لیکن اب اس کا کوئی نام و نشان نہیں بچا ہے۔

Published: undefined

واضح رہے کہ پارک میں موجود اس درگاہ میں بلا تفریق مذہب اور عقیدہ بڑی تعداد میں لوگ سیاحت کے لیے پہنچتے تھے۔ شہر کی بھیڑ بھاڑ والی زندگی سے پریشان افراد بھی یہاں پہنچتے تھے اور سکون کا احساس کرتے تھے۔ لیکن اب یہاں ہر طرف بے سکونی کا عالم ہے، توڑ پھوڑ کے نشانات ہیں اور ملبے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined