
آئی اے ایس افسر / تصویر آئی اے این ایس
بھوپال: مدھیہ پردیش میں ریزرویشن کے حوالے سے دیے گئے ایک متنازع بیان نے سیاسی و انتظامی حلقوں میں شدید بحث چھیڑ دی ہے۔ ریاستی حکومت نے اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہوئے متعلقہ آئی اے ایس افسر کے خلاف فوری کارروائی کی ہے۔ پہلے انہیں شو کاز نوٹس جاری کیا گیا اور پھر بدھ کی دیر رات عام انتظامی محکمہ (جی اے ڈی) نے انہیں فوری اثر سے معطل کر دیا۔
Published: undefined
افسر 2011 بیچ سے تعلق رکھتے ہیں اور معطلی سے قبل محکمۂ زراعت و کسان بہبود میں نائب سکریٹری کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ تنازعہ 22 نومبر کو بھوپال میں منعقد ایک ادبی پروگرام سے شروع ہوا، جہاں اس آئی اے ایس افسر نے ریزرویشن نظام پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ریزرویشن اپنا اصل مقصد حاصل کر چکا ہے اور اب اسے ایک مستقل سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بعدازاں سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں وہ مزید کہتے نظر آئے کہ ’ریزرویشن کا فائدہ ایک ہی خاندان کے ایک فرد تک محدود ہونا چاہیے‘، جس نے معاملے کو اور بھڑکا دیا۔
Published: undefined
ان بیانات کے سامنے آتے ہی ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی تنظیموں کے ساتھ ساتھ برہمن برادری نے بھی سخت اعتراض ظاہر کیا۔ مختلف سماجی گروہوں نے اس بیان کو آئین کی توہین، حساس سماجی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے والا اور امتیازی ذہنیت کی علامت قرار دیا۔ بدھ کو سیکڑوں کارکن بھوپال کے ولبھ بھون ریاستی سکریٹریٹ کے باہر جمع ہوئے، جہاں احتجاج، نعرے بازی اور پُتلے نذر آتش کیے گئے۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ معاملہ صرف محکمہ جاتی کارروائی تک محدود نہ رہے بلکہ آئی اے ایس افسر کے خلاف ایس سی/ایس ٹی (انسدادِ مظالم) ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔ ان کے ہاتھوں میں پوسٹر تھے جن پر تحریر تھا، ’افسر آئین نہیں بدل سکتے‘ اور ’بابا صاحب کی وراثت کی حفاظت کرو‘۔
تنازع بڑھنے پر حکومت نے فوری طور پر شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان سماجی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ ہے اور آل انڈیا سروسز (کنڈکٹ) رولز 1968 کے علاوہ آل انڈیا سروسز (ڈسپلن اینڈ اپیل) رولز 1969 کی خلاف ورزی بھی ہے۔ نوٹس میں واضح ہدایت دی گئی کہ 7 دن میں وضاحت نہ دینے کی صورت میں یکطرفہ محکمہ جاتی کارروائی کی جائے گی۔
وزارت کے ایک سینئر افسر نے کہا، ’’کوئی بھی سول سرونٹ، رتبہ کچھ بھی ہو، ریزرویشن جیسی آئینی پالیسیوں پر ایسی عوامی تنقید نہیں کر سکتا جس سے سماجی تانہ بانہ متاثر ہو۔‘‘
Published: undefined