قومی خبریں

جہانگیر پوری: فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے پولیس پر سنگین سوالات اٹھائے

اگر اس جلوس کے دوران پولیس کے مناسب انتظامات ہوتے، اسلحہ لے جانے سے روکا گیا ہوتا اور مسجد کے سامنے جلوس کو رکنے کی اجازت نہ دی جاتی تو جہانگیر پوری کا واقعہ پیش نہ آتا۔

پولیس اسٹیشن جہانگیر پوری، تصویر ویپن
پولیس اسٹیشن جہانگیر پوری، تصویر ویپن 

بائیں بازو کی پارٹیوں کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے جہانگیر پوری علاقے کا دورہ کرنے کے بعد اس پورے معاملے میں دہلی پولیس کے رول پر سنگین سوال اٹھائے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس پورے واقعے کے پیچھے ایک سوچی سمجھی سازش کی جانب نشاندہی کی گئی ہے۔

Published: undefined

  • بجرنگ دل نے جلوس کا اہتمام کیا تھا۔

  • جلوس میں مقامی نہیں، باہر کے لوگ شامل تھے۔

  • جلوس میں شامل لوگوں کے پاس پستول سمیت دیگر ہتھیار تھے۔

  • شوبھا یاترا دوپہر سے پہلے سی بلاک کا دو بار چکر لگا چکی تھی۔

  • تیسری بار افطار کے وقت، جلوس دوبارہ سی بلاک پہنچا۔

  • اذان کے دوران مسجد کے سامنے ڈی جے بجایا جاتا ہے۔

  • نماز کے دوران اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے ہیں۔

  • اجازت نہ ہونے کے باوجود پولیس کی دو جیپیں جلوس میں شامل تھیں۔

Published: undefined

شمال مغربی دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں ہونے والا فرقہ وارانہ تشدد سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیموں کے ایجنڈے کے ایک حصے کے طور پر سامنے آیا ہے کہ وہ مذہبی تقریبات اور تہواروں کو فرقہ وارانہ کشیدگی اور تشدد بھڑکانے کے لیے استعمال کریں۔ دہلی کے واقعے کو ماضی قریب میں ہونے والے واقعات سے جوڑ کر دیکھا جانا چاہیے۔ یہ بائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے تیار کردہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں نتائج آخذ کئے گئے ہیں۔ یہ رپورٹ سی پی ایم، سی پی آئی، سی پی آئی (ایم ایل) اور فارورڈ بلاک نے تیار کی ہے۔

Published: undefined

فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو پتہ چلا کہ ہنومان جینتی کے موقع پر 150-200 لوگوں کا ایک گروپ ہاتھوں میں ہتھیار لے کر اونچی آواز میں ڈی جے بجاتے ہوئے جہانگیر پوری کی سڑکوں پر نکلا۔ تاہم اس گروپ کے پاس جلوس نکالنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ گروہ 16 اپریل کی دوپہر سے اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے مختلف حصوں میں گھوم رہا تھا۔

Published: undefined

اس جلوس کو دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس گروپ میں کچھ لوگوں کے پاس پستول بھی تھے جس کا وہ مظاہرہ بھی کر رہے تھے۔ کئی نیوز چینلز پر دکھائی جانے والی ویڈیوز سے بھی اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے۔ یہ لوگ اشتعال انگیز نعرے لگا رہے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ اس جلوس کا اہتمام مقامی لوگوں نے نہیں کیا تھا بلکہ اس کا اہتمام بجرنگ دل کے یوتھ ونگ نے کیا تھا جس میں زیادہ تر شرکاء دوسرے علاقوں سے آئے تھے۔ جلوس کے دوران پولیس کی دو جیپیں بھی تھیں۔ ایک جلوس کے آگے اور ایک جلوس کے پیچھے۔ لیکن دونوں جیپوں میں صرف دو پولیس والے تھے۔

Published: undefined

فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے پایا کہ جلوس پہلے ہی جہانگیر پوری کے سی بلاک کے دو چکر لگا چکا تھا۔ زیادہ تر بنگالی بولنے والے مسلمانوں کے گھر سی بلاک میں ہیں۔ شام کو جب یہ جلوس تیسری بار سی بلاک پہنچا تو وہاں ہنگامہ ہوگیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’جیسا کہ کچھ بی جے پی رہنما الزام لگا رہے ہیں کہ شوبھا یاترا پر حملہ مسلمانوں نے پہلے سے منصوبہ بند کیا تھا، تو پھر اس یاترا پر دن میں دو بار حملہ کیوں نہیں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب یہ جلوس تیسری بار سی بلاک پہنچا اور افطار کے وقت ایک مسجد کے سامنے رکا اور نعرے لگانے لگا تو وہاں ہنگامہ ہوگیا۔‘‘

Published: undefined

فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے تھانے کا دورہ بھی کیا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ دہلی بی جے پی صدر آدیش گپتا، بی جے پی ایم پی ہنس راج ہنس تھانے کے اندر پریس کانفرنس کر رہے تھے اور اس وقت پولیس افسران بھی وہاں موجود تھے۔ پریس کانفرنس کے دوران وہاں موجود لوگ ’جئے شری رام‘ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ماضی میں اس علاقے میں فرقہ وارانہ تصادم کا ایک بھی واقعہ نہیں ہوا۔ اس علاقے میں کئی دہائیوں سے ہندو اور مسلمان ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔

Published: undefined

کئی دہائیوں پہلے جب جہانگیر پوری کو ری سیٹلمنٹ کالونی کا درجہ ملا، تب سے بنگالی بولنے والے مسلمان یہاں رہ رہے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر اپنا کاروبار کرتے ہیں جس میں چھوٹے کاروبار، مچھلی کی فروخت، کباڑ کا کام وغیرہ شامل ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بی جے پی ان لوگوں کو غیر قانونی باشندہ کہہ رہی ہے۔ انہیں روہنگیا بھی کہا جا رہا ہے حالانکہ وہ سبھی دہلی کے رہنے والے ہیں۔

Published: undefined

علاقے کا دورہ کرنے کے بعد، سی پی ایم لیڈر برندا کرات اور سی پی ایم کے دہلی سکریٹری کے ایم تیواری، جو حقائق تلاش کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے، نے دہلی کے پولیس کمشنر راکیش استھانہ کو ایک خط لکھ کر پولیس کے کردار پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا کہ یہ پولیس کی ذمہ داری تھی۔ ذرا احتیاط کی جاتی تو واقعہ سے بچا جا سکتا تھا۔ خط میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اگر پولیس وقت رہتے اقدام لیتی تو تشدد کو روکا جا سکتا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی تھی تو پھر اسلحے کی نمائش میں ملوث لوگ کیوں تھے اور پولیس نے انہیں ایسا کرنے سے کیوں نہیں روکا۔ دراصل ہتھیاروں کا مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف آرمس ایکٹ کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔

Published: undefined

خط میں کہا گیا ہے کہ ’’میڈیا میں آپ کے (پولیس کے) بیان سے یہ واضح نہیں ہے کہ اگر آپ نے ان لوگوں کی نشاندہی کی ہے جو ہتھیاروں کی نمائش کر رہے تھے تو اب تک ان کو کن دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے اور مقدمہ درج کیا گیا ہے یا نہیں؟ آپ کے بیان سے یہ بھی واضح نہیں ہوا کہ اس پورے معاملے میں پولیس کے کردار کی تحقیقات ہو رہی ہیں یا نہیں؟ جلوس میں اسلحہ لے جانے کی اجازت کس نے دی اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟‘‘ آخر پولیس نے مسجد کے سامنے جلوس کو افطار اور نماز کے دوران نعرے لگانے سے کیوں نہیں روکا؟

Published: undefined

خط میں کہا گیا ہے کہ اگر اس جلوس کے دوران پولیس کے مناسب انتظامات ہوتے، اسلحہ لے جانے سے روکا گیا ہوتا اور مسجد کے سامنے جلوس کو رکنے کی اجازت نہ دی جاتی، تو جہانگیر پوری کا واقعہ پیش نہ آتا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ جس پولیس ٹیم کو اس کیس کی تفتیش سونپی گئی ہے وہی اس پورے واقعے کی ذمہ دار ہے، ایسے میں شفاف تحقیقات کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined