جہانگیر پوری تشدد کا سچ ’آج تک‘ کے اسٹنگ آپریشن میں آیا سامنے، خفیہ کیمرے نے کیے کئی انکشافات!

جہانگیر پوری تشدد کی جانچ کے لیے دہلی پولیس نے درجن بھر ٹیمیں میدان میں اتار دی ہیں، لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ آخر تشدد کی شروعات کیسے ہوئی۔

جہاںگیر پوری تشدد، تصویر ویپن
جہاںگیر پوری تشدد، تصویر ویپن
user

قومی آوازبیورو

’’ہم سبھی جلوس کی ویڈیو بنا رہے تھے۔ ہم نے ایک دوسرے کو گلے لگایا۔ ہاتھ ملائے۔ جلوس کے لیے خلوص نیتی کے ساتھ راستہ دیا گیا۔ تب تک کوئی دقت نہیں ہوئی۔ پھر کچھ لوگ مسجد کے سامنے پہنچے اور بولے کہ ڈی جے بجایا جائے گا۔ ان لوگوں نے مسجد کے سامنے جھنڈا لہرانے کی کوشش بھی کی۔ اس کے بعد یہ سب (تشدد) شروع ہوا۔ اچانک ہر طرف افرا تفری مچ گئی۔‘‘ یہ بیان جہانگیر پوری باشندہ راجہ نے دیا ہے جو ہفتہ کے روز ہوئے تشدد واقعہ کا چشم دید ہے۔ ’آج تک‘ نے جہانگیر پوری تشدد کا سچ جاننے کے لیے ایک اسٹنگ آپریشن کیا اور اپنے خفیہ کیمرے میں کئی ایسی چیزیں قید کیں جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کے لیے کافی ہے۔

رپورٹر نے جب راجہ سے مزید تفصیل جاننے کی کوشش کی تو اس نے بتایا کہ ہر سال پولیس کی موجودگی میں جلوس نکالا جاتا تھا، کبھی ایسی دقت نہیں ہوئی۔ لیکن اس بار جلوس سے 5-4 دن پہلے ہی ہندو-مسلم کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ راجہ نے جلوس نکالنے والے لوگوں پر اُکسانے کا الزام لگایا اور کہا کہ جلوس میں شامل لوگ اچانک آئے اور ڈی جے بجانے لگے۔ جب انھیں روکا گیا تو جلوس میں شامل لوگوں نے پتھراؤ شروع کر دیا۔ اس کے بعد ہنگامہ شروع ہوا۔ راجہ نے رپورٹر سے یہ سوال بھی کیا کہ اگر آپ کے ساتھ غلط سلوک کیا جائے گا تو آپ کیا کریں گے؟ ہماری طرف سے بھی لوگ جمع ہو گئے، افرا تفری مچ گئی اور پھر پولیس آ گئی۔ راجہ نے ایک ویڈیو بھی دکھایا جس میں جلوس میں شامل کچھ شخص تلوار اور ہتھیاروں کے ساتھ نظر آئے۔ راجہ کا کہنا ہے کہ یہ ایسے ہتھیار تھے جیسے کہ ہم جنوبی ہند کی فلموں میں دیکھتے ہیں۔


جہانگیر پوری تشدد کی جانچ کے لیے دہلی پولیس نے درجن بھر ٹیمیں میدان میں اتار دی ہیں، لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ آخر تشدد کی شروعات کیسے ہوئی۔ ہندو اور مسلم دونوں ہی فریقین اپنی اپنی دلیلیں پیش کر رہے ہیں، لیکن ’پورے سچ‘ سے پردہ ابھی تک نہیں اٹھ پایا ہے۔ اسی سچ کی تلاش کے لیے ’آج تک‘ نے خفیہ کیمرے کے ساتھ دونوں فریقین کے لوگوں سے بات کی۔ ہنومان جینتی کے موقع پر نکلی شوبھا یاترا میں شامل ایک شخص نے رپورٹر کے سامنے اعتراف کیا کہ ایک گروپ مسجد کے سامنے رک گیا تھا اور یہاں جئے شری رام کے نعرے لگائے گئے۔ انڈیا ٹوڈے کی اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم کے سامنے کرن نامی شخص نے واضح لفظوں میں کہا کہ اگر ہندو مسجد کے سامنے نعرے لگاتے ہیں تو اس سے کسی کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ’’ہم مسجد کے باہر رکے۔ یہاں جئے شری رام کہنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

واضح رہے کہ تشدد کے بعد جو تصویریں سامنے آئی ہیں ان میں جہانگیر پوری مسجد میں بھگوا جھنڈے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ کچھ جھنڈے مسجد احاطہ کے اندر بھی ہیں۔ ایک فریق کا دعویٰ ہے کہ مسجد میں بھگوا جھنڈے لگا کر اکسانے کی کوشش کی گئی۔ اس کا اندازہ اس وقت بھی ہوا جب’آج تک‘ کے رپورٹر نے کچھ لوگوں سے بات کی۔ خفیہ کیمرے پر بات چیت کے دوران کرن نے کہا کہ انھیں کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے تھی (مسجد کے سامنے جئے شری رام کا نعرہ لگانے پر)، پھر پتھر کیوں پھینکے گئے۔ کرن سے جب پوچھا گیا کہ جلوس میں شامل لوگوں نے بھی کیا پتھراؤ کیا؟ تو اس نے کہا ’’یہ ہمارے اوپر پتھر پھینکنے پر جوابی کارروائی کی طرح تھا۔‘‘ کرن کا کہنا تھا کہ ’’ہم کیوں نہیں پھینک سکتے۔ ہم گاندھی کو ماننے والے نہیں ہیں۔ اب پٹنے پر دوسرا گال کون آگے کرے گا؟‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔