قومی خبریں

کیوں نہ کہوں: نقشہ مسجد کا نہیں بلکہ قوم کے مستقبل اور سوچ کا نقشہ ہے... سید خرم رضا

جدید ڈیزائن کی مسجد اور اس کے ساتھ جدید طرز کے اسپتال کی بلڈنگ کا نقشہ دراصل یہ کسی بلڈنگ کا نقشہ نہیں ہے بلکہ ایک قوم کے مستقبل کا ہے

ایودھیا کے دھنی پور کی مسجد کا نقشہ / تصویر بشکریہ ٹوئٹر
ایودھیا کے دھنی پور کی مسجد کا نقشہ / تصویر بشکریہ ٹوئٹر 

اس زبردست ٹھنڈ میں بڑی تعداد میں کسان اپنا گھر بار چھوڑ کر سڑکوں پر ٹینٹ لگا کر یا اپنے ٹریکٹر ٹرالیوں میں دن رات گزارنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کسانوں کو یقین ہے کہ اگر انہوں نے یہ لڑائی نہیں لڑی اور یہ لڑائی نہیں جیتی تو وہ آنے والامستقبل ہار جائیں گے۔ دوسری جانب حکومت کا یہ ماننا ہے کہ جو فیصلہ اس نے لیا ہے اس سے اچھا فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ان حالات میں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کسانوں کو کتنے اور دن یا مہینے اسی طرح گھر سے باہر گزارنے پڑیں گے۔ حکومت کو یہ لگ رہا ہے کہ کچھ دنوں بعد یہ کسان تھک جائیں گے، دھیرے دھیرے ان میں اختلافات بھی پیدا ہو جائیں گے اور اس دوران حکومت اپنے موقف سے زیادہ لوگوں کو سمجھا کر متاثر بھی کر لے گی۔

Published: 20 Dec 2020, 12:27 PM IST

اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا اور کون اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا یہ تو آنے والے دن ہی طے کریں گے لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہر نئے دن کے ساتھ ایک طبقے اور حکومت کے بیچ فاصلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اس سے بھی کوئی منکر نہیں ہے کہ اس دوران اقلیتوں کا اکثریتی طبقہ یعنی مسلمانوں کےساتھ حکومت کا فاصلہ پہلے سے ہی کافی بڑھا ہوا ہے۔ حکومت کے لئے طبقوں کی بڑھتی ناراضگی اور حکمراں اتحاد سے اتحادیوں کا چھوڑ کر جانا ہمیشہ تشویش کا پہلو ہونا چاہیے۔

Published: 20 Dec 2020, 12:27 PM IST

کسانوں کے لئے یہ وقت تکلیفوں بھرا ضرور ہے لیکن اس کو اپنی زمینی حقیقت اور کھیتی سے متعلق دشواریوں اور مسائل کو ملک گیر پیمانے پر سمجھنے اور سمجھانے کا ایک موقع بھی ہے۔ اس تحریک سے کسانوں اور غریبوں میں اتحاد پیدا ہو سکتا ہے جو آنے والے دنوں میں ان کے لئے حکومت میں حصہ داری کا راستہ بھی کھول سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے سردی میں پڑے یہ کسان بھی اسی احساس کا شکار ہو جائیں جس کا شکار شہریت ترمیمی قانون کے خلاف لڑنے والی خواتین اور لوگ ہو گئے تھے۔ کسانوں کا حال بھی کہیں ملک کی اقلیتوں کی اکثریت مسلمانوں جیسا نہ ہو جہاں مایوسی اور ناکامی ان کو اپنا مقدر لگنے لگے۔

Published: 20 Dec 2020, 12:27 PM IST

ملک کے مسلمانوں کو چاہے لگتا ہو کہ اس دور حکومت میں ان کے لئے زندگی کے مواقع تنگ ہو گئے ہیں اور ان کو اپنا مستقبل تاریک لگنے لگا ہو لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی کیا سوچ ہے اور اس حقیقت سے بھی سبھی واقف ہیں کہ جب تک کیجریوال اور اویسی جیسے رہنما موجود ہیں تو موجودہ حکومت کے لئے حکمرانی اور انتخابی سیاست میں کامیابی حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ نئی سوچ کی سیاست کے نام پر ووٹوں کی تقسیم ہو یا پھر خود مسلمانوں کو مضبوط کرنے اور اپنی آواز بننے کی بات ہو اس میں کامیابی حکمراں جماعت کی ہی ہے۔

Published: 20 Dec 2020, 12:27 PM IST

مایوسی تو ویسےبھی کفر ہے اور ان تبدیلیوں سے مایوس ہونے کی ضرورت تو بالکل نہیں ہے اور اس کے کہنے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے اور ایسا ہی کچھ حکومت کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے۔ دوسری سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس دور نے مسلمانوں کو اپنی سوچ اور اپنے رویوں میں تبدیلی کے مواقع فراہم کئے ہیں اور خود بخود کچھ چیزیں بہت اچھی ہو گئی ہیں۔

Published: 20 Dec 2020, 12:27 PM IST

طلاق ثلاثہ کو لے کر ہندوستان کا مسلم سماج پہلے سے ہی بہت پریشان تھا اور اصلاحات کرنا چاہتا تھا لیکن سیاسی اور مسلکی اختلافات کی وجہ سے اس معاملہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہو پا رہی تھی اور حکومت کے اس فیصلہ سے مسلمانوں کو ایک بڑی خامی سے نجات مل گئی۔ مسلمانوں میں خواتین کو وہ درجہ حاصل نہیں تھا جو اسلام نے مسلم خواتین کو دیا ہوا تھا لیکن شہریت ترمیمی قانون پاس ہوا اور جامعہ کے واقعہ کے بعد جس انداز میں مسلم خواتین نے میدان میں اتر کر مورچہ سنبھالا اس نے مسلم خواتین کو ایک پہچان اور اعتماد بخشا۔ حکومت کے اس فیصلہ سے گھروں میں قید مسلم خواتین کو باہر کی دنیا اور اس کے مسائل سمجھنے کا موقع ملا۔ بائیں محاذ یعنی کمیونزم سے مسلمانوں کی ہمیشہ سے دشمنی رہی جس کی وجہ سے ایک سوچ سے ہمیشہ رابطہ منقتع رہا لیکن حکومت کے فیصلوں نے ان دو دشمنوں کو ایک ہی صف میں لا کر کھڑا کر دیا یعنی مسلمان اس سوچ کے بہاؤ سے مستفیض ہونا شروع ہو گئے اور اس نے ان میں ایک نئے اعتماد اور سوچ کو جنم دیا۔ حکومت کے ذریعہ منافرت کو نہ روکنے کی وجہ سے مسلمانوں میں تو اتحاد پیدا ہوا ہی ساتھ میں مسلمانوں کی سوچ کا دائرہ وسیع ہوا اور خامیوں کے خاتمہ کے ساتھ اعتماد بھی پیدا ہوا۔

Published: 20 Dec 2020, 12:27 PM IST

گاڑی صرف یہیں نہیں رکی۔ برسووں سے جس بابری مسجد کے تنازعہ کو لے کر مسلمان اور ملک پریشان تھا، عدالتی فیصلہ نے مسلمانوں کے ہر دعوے کو صحیح ٹھہرایا لیکن فیصلہ ان کے حق میں نہیں دیا جس کی وجہ سے مختلف حلقوں میں سوال ضرور کھڑے ہوئے لیکن فیصلہ قبول کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کی پوری دنیا میں پذیرائی ہوئی۔ اس فیصلہ میں مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کے لئے ایک جگہ دی گئی اور اس جگہ میں مسجد کے نقشہ کے ساتھ جو ایک اسپتال کی بلڈنگ کا نقشہ پیش کیا گیا اس نے اس پوری کہانی کو پلٹ دیا۔ جدید ڈیزائن کی مسجد اور اس کے ساتھ جدید طرز کے اسپتال کی بلڈنگ کا نقشہ دراصل یہ کسی بلڈنگ کا نقشہ نہیں ہے بلکہ ایک قوم کے مستقبل کا نقشہ ہے۔ ایک طرف جہاں ملک کی اکثریت کو ایک مذہبی جنون کی جانب دھکیلا جا رہا ہے وہیں مسلمانوں کی سوچ میں واضح تبدیلی نظر آ رہی ہے کہ وہ مذہب کے ساتھ انسانیت کے پہلو کو اہمیت دے رہے ہیں یعنی وہ مذہب کی اصل روح کو سمجھ رہے ہیں۔

Published: 20 Dec 2020, 12:27 PM IST

میں ’کیوں نہ کہوں‘ کہ حالات کتنے بھی خراب نظر آئیں لیکن وہ خراب حالات اپنے ساتھ کچھ اچھے پہلو ضرور لے کر آتے ہیں۔ اس لئے کسانوں کو اگر یقین ہے کہ وہ اپنی لڑائی میں حق بجانب ہیں تو وہ وقتی پریشانیوں سے دو چار ضرور ہیں لیکن ان کو ان پریشانیوں کے بعد راحت ضرور ملے گی۔

Published: 20 Dec 2020, 12:27 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 20 Dec 2020, 12:27 PM IST