عالمی آواز-10: کورونا وائرس کچھ سرمایہ داروں کی منصوبہ بند سازش... سید خرم رضا

جس ملک اور جگہ کو کورونا وبا کے پھیلنے کی وجہ بتایا گیا وہاں چند دنوں میں قابو پا لیا گیا، اورانہوں نے اندرونی طور پر سب کچھ ایسے ہی ٹھیک کر لیا جیسے دیگر بیماریوں کو ٹھیک کر لیا جاتا ہے۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

سید خرم رضا

میرے بہت ہی قریبی عزیز عید الضحی کے چند روز بعد اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئےاور دنیا سے رخصتی کی وجہ وہی وبا رہی جس کی وجہ سے یہ سال، سال نہ رہا۔ زندگی کے آخری دن انہوں نے جس بہن کےگھرپر گزارے وہ بھی کورونا وائرس سے متاثر ہوئیں اور اللہ کا بڑا کرم رہا کہ کافی لمبے علاج کے بعد وہ صحت یاب ہو گئیں اور اب ٹھیک ٹھاک ہیں۔ کوروناوائرس کے یہ دو معاملے بالکل گھر میں ہی ہوئے اس لئے اس وائرس سے منکر بھی نہیں ہو سکتا۔ میرے عزیز جن کا انتقال ہوا ان کی صحت ایسی تھی کہ جو دیکھتا تھا وہ رشک کرتا تھا، لیکن چند دنوں میں بیماری ہوئی بھی اور اس بیماری میں ان کی موت بھی ہو گئی۔

کورونا وبا کے دور میں جب بڑی تعدادمیں مہاجر مزدوروں کو بغیر کسی ضابطہ پر عمل کئے بڑے شہروں سے گھر کی جانب جاتے دیکھا تو لگا کہ یہ سب تو وائرس کیریر ہیں اور یہ خود تو بیمار ہوں گے ہی، ساتھ میں اپنے گاؤں کی بڑی آبادی کو بھی متاثر کریں گے۔ اس سوچ کی وجہ ذرائع ابلاغ میں آنےوالی خبریں، سوشل میڈیا پر گشت کرنے والے پیغامات، ایک خاص فرقہ کو کورونا پھیلانے والے کے طور پر پیش کرنا اور اسی بنیاد پر یہ طے کرنا کہ کس فرقہ کے لوگوں سے سبزی لی جائے گی اور کس سے نہیں۔ بہر حال دھیرے دھیرے حالات بہترہونے لگے اور خود ہندوستان میں ایک لاکھ کے قریب یومیہ کیس آنے کے بعد اب تعداد بہت نیچے آ گئی ہیں۔ اعلان شدہ لاک ڈاؤن اور خود پر تھوپے ہوئے لاک ڈاؤن کی وجہ سےجو اقتصادی اور سماجی صورتحال خراب ہوئی، تو لوگوں نے مجبوراً ٹیکنالوجی کا سہارا لیا۔


پوری دنیا میں کس طرح یہ وبا پھیلی، اور جس ملک اور جگہ کو اس وبا کے پھیلنےکی وجہ بتایا گیا وہاں چند دنوں میں قابو پا لیا گیا، اورانہوں نے اندرونی طور پر سب کچھ ایسے ہی ٹھیک کر لیا جیسے دیگر بیماریوں کو ٹھیک کر لیا جاتا ہے۔ بس اس میں یہ کہ انہوں نے جو اقدامات اٹھائے وہ جنگی پیمانہ کے تھے۔اس بیماری سےدس سال پہلے ’کنٹیجن‘ نامی ایک انگریزی فلم آئی تھی اور لگا کہ جیسے فلم کو حقیقت میں کسی نے اتار دیا ہو۔ جی! کسی نے حقیقت میں اتار دیاہو۔ حالات دیکھ کرایسا خود بخود نکل جاتا ہے۔ یہ وائرس ضرورت ہے یا واقعی کوئی مہلک وائرس ہے یا میڈیا کا سہارا لےکر یہ سب کچھ منصوبہ بند پروپیگنڈا تھا؟ ہم جب متضاد اعداد و شمار دیکھتے ہیں تو ایسا یقین کرنے کو دل چاہتا ہے کہ یہ وائرس منصوبہ بند پروپیگنڈا ہے۔

اس بیماری کے بعد جس طرح مغرب، بالخصوص امریکہ اور چین آمنے سامنے نظر آئے وہ قابل غور ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے تو اس وائرس کا نام ہی چینی وائرس رکھ دیا تھا۔ جس ملک میں انسانی جان کی بہت زیادہ اہمیت نظر آتی ہے وہیں پر سب سے زیادہ کیسز اور سب سے زیادہ اموات ہوئیں۔ اس بیماری کے بیچ ملک کی معیشت کھڑی رہی، تھوڑی بہت بےروزگاری کی چرچا ہوئی لیکن اس پر بھی کوئی بے چینی نظر نہیں آئی اور صدارتی انتخابات بھی ہو گئے۔


کورونا وبا کے بعد پوری سماجی دنیا بدل گئی۔ دفتر کے کام، تعلیم کی حصولی اور شاپنگ وغیر ہ، یعنی زندگی کےہر اہم شعبہ میں آن لائن کی دخل اندازی ہوگئی۔ اس سے کن لوگوں کو فائدہ ہوا اور کن لوگوں کو نقصان ہوا اس پر اگر غور کریں تو لگتا ہے کہ مانو یہ وائرس کوئی سوچا سمجھا منصوبہ ہو۔ دنیا کی کچھ بڑی کمپنیوں نے ایک خاص شعبہ میں سرمایہ کاری بڑھا دی اورغریب سڑکوں پرآ گیا۔ جس کام میں ان کمپنیوں کو آن لائن کرنےمیں سالوں لگ جاتے وہ چند مہینوں میں ہو گئیں اور بیماری کی وجہ سے کہیں ناراضگی بھی نہیں ہوئی بلکہ اس کو مجبوری سمجھ کر سب نے خوشی خوشی اپنا لیا۔

اس کے اثرات پر گفتگو کرنے سے پہلے ہمیں نوٹ بندی کے فیصلہ پر بھی نظر ڈالنی چاہئے۔ نوٹ بندی میں غریبوں نے لائن میں لگ کر اپنے پیسہ بدلوائے تھے اور ان کو یہ امید تھی کہ اس سے دہشت گردی کی کمر ٹوٹ جائے گی اور نہ جانے ملک ترقی کر کے کہاں پہنچ جائے گا۔ غریب اور چھوٹی صنعت والا مارا گیا اور مزید غریب ہوگیا۔ چھوٹی دوکان یا کارخانہ چلانے والا مزدوری کے لئے دروازہ کھٹکھٹا نے لگا لیکن سینسیکس کبھی نیچے نہیں آیا۔ کورونا وائرس سرمایہ داروں کی اتنی زبرد ست منصوبہ بندی ہے کہ اس میں پوری دنیا بدل گئی اور سب نے اس تبدیلی کو مجبوری اور ضرورت کے طور پر دل سے ویسے ہی اپنا بھی لیا جیسے ہندوستان نے نوٹ بندی کو اپنا لیا تھا۔


اب نو مہینے بعد لگتا ہے کہ پوری دنیا کو ٹھگ لیا گیا اور نیا نارمل یعنی نئی طرز زندگی کو انسانی زندگی کا حصہ بنا دیا گیا۔سری لنکا میں کورونا وائر س نہ کے برابر، پاکستان میں بغیر احتیاط برتے کورونا وائرس کا زیادہ اثر نہیں اورافریقہ کے غریب ملکوں میں کورونا کااثر نظرنہیں آتا۔ ان سب اعداد و شمار کو دیکھنے کے بعد لگتاہے کہ جن ممالک میں ٹیکنالوجی کی دخل کی فوری ضرورت تھی، وہ ہدف سرمایہ داروں نے حاصل کر لیا ہے۔ اور جہاں ابھی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ان کے پاس اس کے لئے سرمایہ ہے اسے چھوڑ دیا ہے۔ ان کو قابو پانے کے لئےاب تمام ڈاٹا آن لائن حاصل کر لیا جائے گا اور وہ بڑی کمپنیاں خود کر لیں گی۔ میں کیوں نہ کہوں کہ پوری دنیا ایک منصوبہ بند طریقہ سے کچھ سرمایہ داروں نے بدل دی ہے اور مزہ کی بات یہ ہے کہ لوگوں نے خوشی خوشی اس تبدیلی کو سینے سے لگا بھی لیا ہے اور مجھ جیسے بھی اس وائرس کے منکر نہیں ہوئے۔ آنےوالے دن غریبوں اور متوسط طبقہ کے نہیں ہوں گے، وہ بیچارے مزید غریب ہو جائیں گے اور چند سرمایہ داروں کی چاندی ہو جائے گی اور ہوتی رہےگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔