مودی حکومت کے ذریعہ پاس کردہ متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف دہلی-غازی پور سرحد پر مظاہرہ کر رہے کسانوں نے جمعہ کو متنبہ کیا ہے کہ اگر ہفتہ کے روز حکومت کے ساتھ ہونے والے اگلے دور کی بات چیت بے نتیجہ ہوتی ہے تو وہ قومی راجدھانی دہلی میں سڑکوں پر بڑی تعداد میں نکلیں گے اور خوردنی اشیاء کی فراہمی ٹھپ کر کے احتجاجی مظاہرہ تیز کریں گے۔
Published: undefined
غور طلب ہے کہ وگیان بھون میں جمعرات کو مرکزی حکومت اور کسان لیڈروں کے درمیان چوتھے دور کا مذاکرہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا، لیکن حکومت نے کسانوں کے کچھ مطالبات پر اپنا رخ نرم کر لیا ہے۔ حالانکہ کسانوں نے تینوں زرعی قوانین کو رد کیے جانے تک احتجاجی مظاہرہ جاری رکھنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اب سبھی کی نگاہیں ہفتہ کی دوپہر شروع ہونے والی میٹنگ پر ہے جس میں ایک بار پھر حکومتی نمائندے اور کسان لیڈران ایک ساتھ بیٹھیں گے۔
Published: undefined
دہلی-غازی پور سرحد پر احتجاجی مظاہرہ کی قیادت کر رہے ’بھارتیہ کسان یونین‘ کے ترجمان راکیش ٹکیت نے کہا کہ ’’کسان چاہتے ہیں کہ حکومت نئے زرعی قوانین کو واپس لے اور ایک نیا مسودہ تیار کرے۔ نئے قوانین میں کارپوریٹس کے مفادات کا دھیان رکھا گیا ہے۔ قانون کسانوں کے لیے ہونا چاہیے اور ان سے مشورہ لیا جانا چاہیے۔ یا تو حکومت کل ہماری گزارشات پر مہر ثبت کرے یا ہم احتجاجی مظاہرہ جاری رکھیں گے۔ ابھی کسانوں کی ایک بڑی تعداد دہلی پہنچنے کے لیے تیار ہے۔‘‘
Published: undefined
کسان ایسو سی ایشن کے ایک سینئر رکن نے اپنا نام شائع نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اگر مطالبات پورے نہیں کیے گئے تو کسان 26 جنوری کی پریڈ کے چشم دید بنے رہیں گے اور قومی راجدھانی کی سڑکوں پر اپنے ٹریکٹر چلائیں گے۔ ’ترائی کسان سنگٹھن‘ کے سربراہ تیجندر سنگھ وِرک نے کہا کہ ’’اگر حکومت کل ہمارے مطالبات کو نہیں مانتی ہے تو ہم قومی راجدھانی میں جانے والے دودھ، سبزیوں اور پھلوں کی فراہمی کو روک دیں گے۔ سڑکوں پر رخنہ انداز ہونا صرف پہلا قدم تھا۔ ہم کل اگلے قدم کے بارے میں فیصلہ لیں گے۔‘‘
Published: undefined
دہلی-ہریانہ اور دہلی-اتر پردیش سرحد پر کسان گزشتہ 9 دنوں سے دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ سنگھو سرحد پر بھی ہزاروں کسان ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں جب کہ کسان کے کئی دیگر گروپوں نے دہلی-ہریانہ، دہلی-یو پی کے درمیان غازی پور بارڈر اور دہلی-یوپی کے چّلا بارڈر پر راستے میں رکاوٹ کھڑی کر رکھی ہے۔ مظاہرہ کر رہے کسان اس سال کے شروع میں پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انھوں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ وہ کم از کم حمایتی قیمت (ایم ایس پی) کو ختم کرنے کا راستہ ہموار کریں گے جس سے وہ بڑے کارپوریٹ گھرانوں کی ہمدردی پر منحصر ہو جائیں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined