مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انڈیا بلاک کے لیڈران
تصویر: پریس ریلیز
ڈیجیٹل پرسنل ڈاٹا پروٹیکشن ایکٹ کی ایک دفعہ کے خلاف انڈیا بلاک کی پارٹیوں نے آواز بلند کی ہے۔ آج انڈیا بلاک میں شامل اہم پارٹیوں کے لیڈران نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اس ایکٹ میں شامل ایک دفعہ پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس دفعہ کو ہٹایا جانا چاہیے۔ پریس کانفرنس میں اپوزیشن اتحاد کے لیڈران نے کہا کہ ڈیجیٹل پرسنل ڈاٹا پروٹیکشن ایکٹ (ڈی پی ڈی پی اے) کی ایک دفعہ آر ٹی آئی (حق اطلاعات ایکٹ) کے تحت لوگوں کو ملی طاقت پر حملہ کرتی ہے۔ اس سے آر ٹی آئی بے اثر ہو جائے گا۔
Published: undefined
پریس کلب آف انڈیا میں منعقد اس مشترکہ پریس کانفرنس میں کلیدی بیان کانگریس رکن پارلیمنٹ گورو گگوئی کے ذریعہ جاری کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’جو ڈیجیٹل ڈاٹا پروٹیکشن ایکٹ پاس ہوا ہے، اس میں ایک بہت ہی خطرناک سیکشن ہے ’سیکشن (3)44، جو آر ٹی آئی ایکٹ کے سیکشن (j)(1)8 کو ہی بدل رہا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ڈاٹا پروٹیکشن بل نے آر ٹی آئی ایکٹ کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر آر ٹی آئی میں ایسی کوئی جانکاری مانگی گئی ہے، جس کا مفاد عامہ سے کوئی مطلب نہیں ہے، تو اس کا جواب دینا لازمی نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
گورو گگوئی نے اس سیکشن کے منفی اثرات کی مثال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ’’اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ بہار میں جو پل ٹوٹ گئے تھے، ان کے ٹنڈر افسران نے کس کانٹریکٹر کو دیے تھے، تو اس ایکٹ کے ذریعہ جانکاری کا حق سازشاً آپ سے چھین لیا گیا ہے۔‘‘ انھوں نے اس سیکشن پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی وزیر سے گزارش کی کہ سیکشن (3)44 کو ڈیجیٹل ڈاٹا پروٹیکشن ایکٹ سے ہٹا دیا جائے۔ کانگریس لیڈر نے اس سلسلے میں تیار پٹیشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے اس پٹیشن پر اپوزیشن پارٹیوں کے تقریباً 120 لیڈران کے دستخط ہیں۔ ہم جلد ہی اسے وزارت میں بھیجیں گے۔ امید ہے کہ حکومت اس بل کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرے گی اور ہمارے مشوروں پر دھیان دے گی، کیونکہ ہمارے ان مشوروں سے بنیادی ڈاٹا پروٹیکشن بل پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔‘‘
Published: undefined
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سماجوادی پارٹی رکن پارلیمنٹ جاوید علی خان نے کہا کہ ’’ڈاٹا پروٹیکشن بل پر بات رکھنے سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب مودی حکومت نے 2019 میں آر ٹی آئی ایکٹ میں ترمیم کی تھی، یہ ایکٹ تبھی کمزور ہو گیا تھا۔ اب اس ڈاٹا پروٹیکشن ایکٹ کے ذریعہ سے حکومت عوام کے بچے ہوئے حقوق کو بھی ختم کرنے جا رہی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’اس حکومت کو جانکاری چھپانے سے بہت پیار ہے، وہ نہیں چاہتی کہ عوام کو جانکاری ملے۔ اس لیے ہم سبھی نے طے کیا ہے کہ حکومت کے ذریعہ لائے جا رہے اس ایکٹ پر اپنا اعتراض درج کرائیں گے۔‘‘
Published: undefined
شیوسینا یو بی ٹی رکن پارلیمنٹ پرینکا چترویدی نے بھی اس مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’آج ڈیجیٹل پلیٹ فارم بہت اہم ہیں، لیکن جس طرح سے حکومت گھیراؤ کی تیاری کر رہی ہے، اس سے تحقیقاتی صحافت کو بہت نقصان ہوگا۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’یہ بات کہنے میں مجھے ذرا بھی جھجک نہیں ہے کہ ملک کا براڈکاسٹ میڈیا کولیپس کر گیا ہے۔ وہ اب اسپائن لیس (بغیر ریڑھ کی ہڈی کے) ہو گیا ہے۔ حکومت اب آر ٹی آئی ایکٹ کو پوری طرح سے تباہ کرنے میں مصروف ہے۔ حکومت کئی ایسے التزامات لائی ہے، جس کے تحت اب عوام کو جانکاری مل ہی نہیں پائے گی۔ یہ بہت ہی افسوسناک ہے۔‘‘
Published: undefined
اس ایکٹ سے متعلق کچھ اہم باتوں کا ذکر کرتے ہوئے پرینکا چترویدی نے کہا کہ ’’2019 اور 2021 میں جب یہ بل لانے کی کوشش کی گئی تھی، تب ان میں یہ التزامات نہیں تھے، لیکن جب 2023 میں منمانے طریقے سے بل لایا گیا، تب یہ التزامات جوڑ دیے گئے۔ یہ حکومت اس بل کے ذریعہ پریس فریڈم اور تحقیقاتی صحافت پر بھی نکیل کسے گی۔ یہی نہیں، اس میں جرمانے کا التزام بھی ہے جو کروڑوں روپے تک ہے۔ ساتھ ہی اس بل کی سب سے خراب بات یہ ہے کہ اس کے تحت ملک بھر میں جو ڈاٹا پروٹیکشن بورڈ بنیں گے، ان کے سبھی فیصلے مرکزی حکومت کے ماتحت ہوں گے۔‘‘ پرینکا نے اپنے بیان میں سبھی سے گزارش بھی کی کہ اس بل کے خلاف آواز بلند کریں تاکہ انڈیا بلاک کا جو مطالبہ ہے، وہ پورا ہو اور عوام کے حقوق محفوظ رہیں۔
Published: undefined
آر جے ڈی ترجمان پروفیسر نول کشور نے میڈیا کے سامنے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ’’ڈیجیٹل پروٹیکشن ایکٹ صرف 7-6 دنوں میں دونوں ایوانوں سے پاس ہو گیا۔ یہ بل ابھی نوٹیفائی نہیں ہوا ہے، اس لیے انڈیا بلاک یہ کوشش کرے گا کہ اس میں تبدیلی کر شفافیت برقرار رکھی جائے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’حکومت کو لگتا ہے کہ اس ایکٹ کے ذریعہ سے وہ اپنی ناکامیوں کو چھپا کر عوام کو گمراہ کر لے گی۔ دراصل مودی حکومت جوابدہی سے بھاگنا چاہتی ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز