منڈی میں تباہی کا منظر / آئی اے این ایس
ہماچل پردیش میں جاتے ہوئے مانسون نے ایک بار پھر تباہی مچا دی۔ منڈی ضلع کے دھرم پور علاقے میں گزشتہ رات بادل پھٹنے سے حالات انتہائی خراب ہو گئے۔ شدید بارش کے بعد مقامی بس اسٹینڈ پانی میں ڈوب گیا اور اس کے ساتھ ہی کئی گاڑیاں بھی تیز بہاؤ میں بہہ گئیں۔ اس واقعے میں ایک شخص کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ہے، جب کہ مقامی لوگوں کو اپنی جان بچانے کے لیے راتوں رات گھروں کی چھتوں پر پناہ لینی پڑی۔ پولیس اور ریسکیو ٹیموں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے بچاؤ آپریشن شروع کیا۔
Published: undefined
مقامی ذرائع کے مطابق بادل پھٹنے کے بعد علاقے میں بہنے والی ’سون کھڈّ‘ کا پانی اچانک خطرناک حد تک بڑھ گیا۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف بس اسٹینڈ، بلکہ آس پاس کی دکانوں اور گھروں میں بھی پانی گھس آیا۔ لوگوں کو رات کے وقت بھاگ کر اپنی جان بچانی پڑی، جس سے علاقے میں بھگدڑ مچ گئی۔
محکمہ موسمیات نے بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مختلف مقامات پر بارش نے معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کیا۔ جوگیندر نگر میں 56 ملی میٹر، پالم پور میں 48 ملی میٹر، پنڈوہ میں 40 ملی میٹر اور کنگڑا میں 34.2 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ منڈی، سراہن، مراری دیوی اور کرسوگ سمیت کئی مقامات پر بھی وقفے وقفے سے تیز بارش ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی کچھ علاقوں میں آندھی اور طوفانی ہواؤں نے بھی مشکلات میں اضافہ کیا۔
Published: undefined
شدید بارش کی وجہ سے ریاست میں تین قومی شاہراہوں سمیت تقریباً 493 سڑکیں بند ہو گئیں۔ قومی شاہراہ-3 کا اٹاری-لیہ سیکشن، این ایچ-305 کا اوٹ-سینج سیکشن اور این ایچ-503اے کا امرتسر-بھوٹا سیکشن ٹریفک کے لیے مکمل طور پر بند رہے۔ ریاستی ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے مطابق 352 بجلی ٹرانسفارمر بند ہو گئے، جب کہ 163 پانی کی فراہمی کی اسکیمیں بھی متاثر ہوئیں۔
اعداد و شمار کے مطابق 20 جون کو مانسون شروع ہونے کے بعد سے اب تک ہماچل پردیش میں بارش اور اس سے جڑی حادثات میں 409 افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں، جب کہ 41 لوگ اب بھی لاپتہ ہیں۔ مرنے والوں میں 180 افراد کی موت سڑک حادثات میں ہوئی۔ سرکاری اندازے کے مطابق ریاست کو اب تک تقریباً 4,504 کروڑ روپے کا مالی نقصان ہو چکا ہے۔
Published: undefined
محکمہ موسمیات نے بتایا کہ یکم جون سے 15 ستمبر کے دوران ریاست میں اوسطاً 991.1 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، جو عمومی اوسط 689.6 ملی میٹر سے 44 فیصد زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کے خطرے کو کم کرنے کے لیے مستقل منصوبہ بندی اور انفراسٹرکچر میں بہتری لائی جائے۔
Published: undefined