قرۃ العین حیدر / آئی اے این ایس
اردو ادب میں چند ایسے نام ہیں جن کے ذکر کے بغیر اس زبان کی تاریخ اور ارتقا کو مکمل نہیں سمجھا جا سکتا۔ ان ہی میں سے ایک درخشاں نام قرۃ العین حیدر کا ہے، جنہیں ادب دوست محبت سے ’عینی آپا‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ صرف ایک ناول نگار نہیں بلکہ ایک ایسی دانشور تھیں جنہوں نے اپنی بصیرت، تخیل اور ادبی گہرائی سے اردو فکشن کو نئی سمت اور وقار عطا کیا۔ ان کی شہرۂ آفاق تخلیق ’آگ کا دریا’ نے اردو ادب کو عالمی منظرنامے پر ایک نئی شناخت دی۔
Published: undefined
قرۃ العین حیدر 20 جنوری 1927 کو اتر پردیش کے علمی و ادبی شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے ممتاز ادیب تھے اور والدہ نظر سجاد حیدر بھی ایک معروف قلمکار تھیں۔ اس ادبی ماحول نے بچپن ہی سے ان کے اندر تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ محض 6 برس کی عمر میں ان کی پہلی کہانی ’بی چُہیا‘ بچوں کے رسالے ’پھول‘ فول میں شائع ہوئی، جو ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کا اعلان تھا۔
قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے بھائی کے ساتھ کچھ عرصے کے لیے پاکستان چلی گئیں لیکن جلد ہی ادراک ہوا کہ ان کا قلبی رشتہ ہندوستان سے ہے۔ 1956 میں وہ واپس آئیں اور ممبئی میں سکونت اختیار کی۔ یہی وہ دور تھا جب ان کی تخلیقات نے اردو ادب میں نئی روح پھونک دی۔ انہوں نے شادی نہیں کی اور اپنی زندگی کو مکمل طور پر ادب، صحافت اور تحقیق کے نام وقف کر دیا۔
Published: undefined
قرۃ العین حیدر نے اردو فکشن میں جو تجربے کیے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس وقت اردو ادب زیادہ تر شاعری کے زیرِ اثر تھا، مگر انہوں نے ناول کو نہ صرف ایک سنجیدہ اور معتبر صنف کے طور پر منوایا بلکہ اسے عالمی ادب کے ہم پلہ کر دیا۔ ان کے موضوعات میں تاریخ، فلسفہ، تہذیب، گنگا-جمنی روایت اور انسانی رشتوں کی پیچیدگیاں شامل رہیں۔
ان کے قلم میں ایک خاص نرمی اور تہذیبی وقار تھا، جس کے ذریعے انہوں نے سماجی اور تاریخی تبدیلیوں کو انتہائی فنکارانہ انداز میں پیش کیا۔ ان کی تحریروں میں نسائی شعور بھی جھلکتا ہے، جو انہیں اپنی معاصر خواتین ادیبوں سے ممتاز کرتا ہے۔
Published: undefined
1959 میں شائع ہونے والا ناول ’آگ کا دریا‘ اردو ادب کی تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ صرف ایک ناول نہیں بلکہ ہندوستان کی تہذیبی و فکری تاریخ کا بھرپور آئینہ ہے۔ اس میں چَندرگُپت موریہ کے عہد سے لے کر قیامِ پاکستان تک کا پورا منظرنامہ پیش کیا گیا ہے۔ کردار وقت کے دھارے کے ساتھ بدلتے ہیں مگر ان کے وجود میں ایک تسلسل قائم رہتا ہے۔ اس ناول نے اردو فکشن کو وہ وسعت بخشی جس کا خواب بھی کم ہی ادیب دیکھ پاتے ہیں۔
ان کا پہلا ناول ’میرے بھی صنم خانے (1945)‘ محض 19 برس کی عمر میں منظرِ عام پر آیا۔ اس کے علاوہ ’شیشے کا گھر‘، ’سفینۂ غمِ دل‘، ’آخرِ شب کے ہمسفر‘، ’کارے جہاں دراز ہے (سوانحی دستاویزی ناول) اور چاندنی بیگم جیسی اہم تخلیقات اردو ادب کے سرمایہ میں شامل ہیں۔ ہر تحریر میں انہوں نے زبان و بیان کی تازگی اور موضوعات کی گہرائی سے قاری کو مسحور کیا۔
Published: undefined
قرۃ العین حیدر کا انتقال 21 اگست 2007 کو نوئیڈا میں ہوا۔ مگر ان کا ادبی ورثہ آج بھی زندہ ہے۔ ان کی تحریریں محض داستان نہیں بلکہ تہذیبی ورثے کی حفاظت کا ایک عظیم عمل ہیں۔ وہ ایک ایسی ادیب تھیں جنہوں نے روایت اور جدیدیت کے بیچ ایک پل تعمیر کیا اور اردو ادب کو ایک نئی سمت عطا کی۔
قرۃ العین حیدر کی شخصیت اور تخلیقات اردو ادب میں مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنے منفرد اسلوب، گہرے مشاہدے اور فکری بصیرت کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ ادب صرف الفاظ کا کھیل نہیں بلکہ تہذیب و تاریخ کی صورت گری کا فن بھی ہے۔ ان کا نام آنے والی صدیوں تک اردو ادب کے ماتھے کا جھومر بنا رہے گا۔
(مآخذ: آئی اے این ایس)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined