آلودگی یعنی ’خاموش قاتل‘! سانس سے متعلق بیماریاں روک رہیں لوگوں کے دِل کی دھڑکن

ڈاکٹر سبھاش گری کا کہنا ہے کہ ’’آلودگی براہ راست پھیپھڑوں اور قلب دونوں کو متاثر کرتا ہے۔ ہوا میں موجود پی ایم2.5 اور پی ایم10 جیسے ذرات جسم میں داخل ہو کر پھیپھڑوں کی سوزش میں اضافہ کرتے ہیں۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>دل کا دورہ، علامتی تصور / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

ملک کی کئی ریاستوں جیسے دہلی، اترپردیش، پنجاب اور مہاراشٹر میں فضائی آلودگی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ سنگین اثر ان لوگوں پر نظر آ رہا ہے، جنہیں پہلے سے سانس سے متعلق بیماریاں لاحق ہیں۔ دمہ، برونکائٹس، سی او پی ڈی اور الرجی سے متعلق سانس کے مسائل اور پھیپھڑوں کے دائمی انفیکشن جیسی بیماریاں اس وقت تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ ایک طرح سے یہ آلودگی ’سائلٹ کلر‘ یعنی ’خاموش قاتل‘ بنتی جا رہی ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایسے مریضوں کو سانس لینے میں زیادہ دقت، سینے میں جکڑن اور مسلسل کھانسی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسپتالوں میں ان بیماریوں والے مریضوں کی تعداد گزشتہ کئی ماہ کے مقابلے میں دوگنا تک بڑھ گئی ہے۔ ایسے مریضوں کو دل کے مسائل اور ہارٹ اٹیک آ رہے ہیں۔ ایسی صورت میں احتیاط برتنا ضروری ہے۔


دہلی کے آر ایم ایل ہاسپٹل میں شعبہ میڈیسن کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر سبھاش گری بتاتے ہیں کہ آلودگی براہ راست پھیپھڑوں اور قلب دونوں کو متاثر کرتا ہے۔ ہوا میں موجود پی ایم2.5 اور پی ایم10 جیسے ذرات جسم میں داخل ہو کر پھیپھڑوں کی سوزش میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ سوزش ہارٹ کو اضافی محنت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ سانس کی بیماری والے مریضوں میں پہلے سے ہی پھیپھڑوں کی صلاحیت کم ہوتی ہے، ایسے میں آلودہ ہوا ان کی حالت کو مزید خراب کر دیتی ہے۔ جب آکسیجن کی مقدار پھیپھڑوں سے صحیح طرح ہارٹ تک نہیں پہنچتی تو ہارٹ پر دباؤ بڑھتا ہے، بلڈ پریشر غیر مستحکم ہوتا ہے اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آلودگی سے جسم میں سوزش بڑھ جاتی ہے، جس سے خون کی شریانوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس سے بلاکیج کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے آلودگی والے شہروں میں سانس کی بیماری والے مریضوں میں دل کی بیماری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایسے مریضوں کو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر سبھاش کا کہنا ہے کہ سانس کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں میں ہارٹ اٹیک کی علامت کبھی کبھی عام مریضوں سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔ اکثر یہ علامت عام ہوتی ہے، لیکن وقت رہتے اس کی پہچان ضروری ہے۔ ایسے مریضوں میں اچانک تیز سانس پھولنا، آرام میں بھی سانس لینے میں مشکلات، سینے میں بھاری پن، گردن یا پیٹھ میں درد، ہاتھوں میں کمزوری، بہت زیادہ تھکان، چکر آنا اور غیر معمولی پسینہ آنا عام علامت ہے۔ کئی بار مریض کو لگتا ہے کہ یہ صرف سانس کی بیماری کا معاملہ ہے، لیکن اصل میں ہارٹ پر دباؤ بڑھ رہا ہوتا ہے۔ اگر ان علامات میں اچانک اضافہ ہو جائے تو فوری طور پر ڈاکٹر سے مشورہ لینا چاہیے۔ بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں حالات سنگین ہو سکتے ہیں، اس لیے ایسے مریضوں کو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔


لیڈی ہارڈنگ ہاسپٹل میں شعبہ میڈیسن کے ایچ او ڈی ڈاکٹر ایل ایچ گھوٹیکر بتاتے ہیں کہ دسمبر ماہ میں سردی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور آنے والے دنوں میں درجہ حرارت میں مزید کمی کا امکان ہے۔ سردی کا موسم سانس کی بیماریوں والے لوگوں کے لیے کافی مشکل ہوتا ہے، کیونکہ ٹھنڈی ہوا پھیپھڑوں کو سکوڑ دیتی ہے، جس کی وجہ سے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سردی میں دل کی خون کی شریانیں بھی سکڑ جاتی ہیں، جس کی وجہ سے بلڈ پریشر بڑھتا ہے اور ہارٹ پر دباؤ آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سردی کے دنوں میں دمہ، سی او پی ڈی اور برونکائٹس کے مریضوں میں سانس پھولنا اور سینے میں جکڑن زیادہ ہوتی ہے۔

سردی اور آلودگی کا امتزاج حالات کو مزید خراب کر دیتے ہیں، کیونکہ ہوا کے بھاری ہونے کے سبب آلودگی پیدا کرنے والے عناصر زمین کے قریب ہی موجود رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس موسم میں ہارٹ اٹیک کے معاملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

کیسے کریں بچاؤ؟

  • آلودگی والے ایام میں ماسک پہن کر ہی باہر نکلیں۔

  • گھر میں وینٹیلیشن اور ضرورت ہو تو ایئر پیوریفائر کا استعمال کریں۔

  • ٹھنڈی ہوا سے بچنے کے لیے صبح-شام باہر جانے سے بچیں۔

  • ڈاکٹر کی دوائیاں اور انہیلر وقت پر لیں، کوئی ڈوز (خوراک) نہ چھوڑیں۔

  • ہلکی ورزش کریں، لیکن سردی اور آلودگی میں زیادہ محنت نہ کریں۔

  • سانس یا ہارٹ سے متعلق سنگین علامت نظر آئے تو فوراً اسپتال جائیں۔