فکر و خیالات

پہلگام حملہ: دعووں کے شور میں دبے چند اہم سوالات

پہلگام حملے اور آپریشن سندور پر سرکاری بیانات کے برعکس کئی اہم سوالات ابھر رہے ہیں جن پر حکومت خاموش ہے، چاہے وہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہو یا بین الاقوامی سفارتی چیلنجز

<div class="paragraphs"><p>سری نگر میں گشت کرتے سکیورٹی اہلکار / Getty Images</p></div>

سری نگر میں گشت کرتے سکیورٹی اہلکار / Getty Images

 
BASIT ZARGAR

پہلگام میں دہشت گردانہ حملے اور اس کے بعد شروع ہونے والے ’آپریشن سندور‘ سے متعلق جو دعوے اور جوابی دعوے کیے جا رہے ہیں، ان کے بیچ کچھ ایسے بنیادی سوالات سامنے آتے ہیں جن کے جوابات شاید حکومت دینا ہی نہیں چاہتی۔ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ان سوالوں کو اٹھانے کی زحمت ہی نہ کرے۔ تاہم، آئیے انہی اہم سوالات پر غور کریں:

1. اگر پہلگام کو نشانہ بنائے جانے کے بارے میں ’ایکشن ایبل انٹیلی جنس‘ دستیاب تھی، تو کیا ہماری سکیورٹی ایجنسیاں ان پر مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام رہیں؟

امریکہ کی جیو اسپیشل انٹیلی جنس کمپنی میکسر ٹیکنالوجیز کو 2 سے 22 فروری کے درمیان پہلگام کی سیٹلائٹ تصاویر کے کئی آرڈرز موصول ہوئے۔ ان میں پہلگام اور اس کے آس پاس کے حساس علاقوں کی ہائی ریزولوشن تصاویر شامل تھیں۔ ایسے ہی مزید آرڈرز 12 اپریل کو بھی دیے گئے، جو کہ حملے سے محض 10 دن پہلے کی بات ہے۔ اس وقت ایک پاکستانی جیو اسپیشل کمپنی میکسر کی پارٹنر تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 9 مئی کو ’دی پرنٹ‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے چند گھنٹوں بعد میکسر نے پاکستانی کمپنی کے ساتھ اپنے کاروباری تعلقات ختم کر دیے۔

Published: undefined

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی شراکت والی کمپنی کی بڑھتی سرگرمیوں کو انٹیلی جنس الرٹ کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے تھا؟ کیا ہماری ایجنسیوں کو علم تھا کہ اس کمپنی کے بانی عبداللہ سعید وہی شخص ہیں جنہیں پاکستان کے ایٹمی توانائی کمیشن کو غیر قانونی طور پر ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے جرم میں سزا ہو چکی ہے؟

2. کیا جنگ بندی میں ثالثی کا سہرا ٹرمپ انتظامیہ کو دے کر پاکستان نے کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں کامیابی حاصل کی؟

اگرچہ ہندوستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کو بھرپور انداز میں مسترد کیا کہ امریکہ نے جنگ بندی میں ثالثی کی لیکن اسلام آباد کی خوشی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی مداخلت سے پاکستان کو ایک طرح کی سفارتی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کا ’غیر جانبدار مقام‘ پر مذاکرات کی تجویز اور ٹرمپ کا کشمیر کو ’ہزاروں سال پرانا مسئلہ‘ کہہ کر ثالثی کی پیش کش کرنا، کیا یہ اشارہ نہیں کہ پاکستان مسئلہ کشمیر میں تیسرے فریق کو شامل کرنے کی راہ ہموار کر رہا ہے؟

Published: undefined

جبکہ شملہ معاہدے کے تحت یہ طے ہوا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان باہمی طور پر مسائل کا حل نکالیں گے۔ بار بار ثالثی کی پیش کش پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کر کے پاکستان عالمی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے، جو اس کی دیرینہ سفارتی حکمت عملی رہی ہے۔

3. کیا پہلگام حملے کے بعد ہندوستان عالمی سطح پر پاکستان کو سفارتی طور پر الگ تھلگ کرنے میں ناکام رہا؟

حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ثبوت ہونے کے باوجود جی-7، جی-20، برِکس یا کوآڈ جیسے بڑے عالمی فورمز سے پاکستان کی کھلی مذمت نہیں کروائی جا سکی۔ ’آپریشن سندور‘ کے بعد بھی کسی بڑی عالمی طاقت نے ہندوستان کی عسکری کارروائی کی حمایت نہیں کی۔ چند ممالک نے صرف تحمل کی تلقین کی، مگر انتقامی کارروائی کے ہندوستان کے حق میں کوئی کھڑا نہ ہوا۔

دوسری طرف چین نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اسے جدید ہتھیار، انٹیلی جنس اور نگرانی کا ڈیٹا فراہم کیا۔ اقوام متحدہ میں بھی چین پاکستان کا دفاع کرتا نظر آیا۔ سلامتی کونسل میں چین نے دیگر ممالک پر دباؤ ڈالا کہ پاکستان میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کا نام نرم انداز میں لیا جائے۔ اس نے ’دی ریزسٹنس فورس‘ کا ذکر بھی رکوا دیا، جس نے پہلگام حملے کی ذمہ دار قبول کی تھی۔

Published: undefined

ترکی اور آذربائیجان نے بھی پاکستان کے ساتھ کھل کر یکجہتی دکھائی۔ ترکی نے پاکستان کو ’بھائی‘ قرار دے کر چھ جنگی طیارے اور ایک بحری جہاز وہاں تعینات کر دیا۔ سرحد پار دہشت گردی کے ٹھوس شواہد کے باوجود پاکستان ایک ارب ڈالر کی مالی امداد حاصل کرنے میں کامیاب رہا، جو ہندوستان کی ایک اور سفارتی ناکامی تصور کی جا رہی ہے۔

4. کیا ہندوستان دو محاذوں کی جنگ کے لیے تیار ہے؟

حکومت کے دعووں کو الگ رکھتے ہوئے یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ہندوستان بیک وقت چین اور پاکستان سے جنگ لڑنے کے لیے تیار ہے؟ ہندوستان کے دفاعی بجٹ اور 700 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر اسے طویل مدتی جنگ کے لیے پاکستان کے مقابلے میں مضبوط بناتے ہیں مگر خود ہندوستانی دفاعی قیادت مانتی ہے کہ دو محاذوں پر بیک وقت جنگ کا امکان محض تصوراتی نہیں رہا۔

کئی دفاعی ماہرین کے مطابق ہندوستان کی موجودہ فوجی طاقت، بالخصوص فضائی قوت، دو محاذوں کی لڑائی کے لیے ناکافی ہے۔ چین 2020 سے پاکستان کو مستقل ہتھیار، ٹیکنالوجی اور تربیت فراہم کر رہا ہے۔ حالیہ جھڑپوں میں چین کا پاکستان کی کھلی حمایت سے یہ خطرہ اور بڑھ گیا ہے۔ اگرچہ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ ہندوستان تیار ہے، لیکن غیر جانبدار عالمی تجزیے ہندوستان کی تیاریوں پر سوال ضرور اٹھاتے ہیں۔

Published: undefined

5. وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ہندوستان اب دہشت گردوں اور ان کی حمایت کرنے والے ممالک میں کوئی فرق نہیں کرے گا، اس کا کیا مطلب ہے؟

اس بیان کا مطلب واضح طور پر پاکستان کی طرف اشارہ ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی پیغام ہے کہ ہندوستان دہشت گردی کو اسپانسرڈ مان کر سخت جواب دے گا۔ اگرچہ پہلگام کے بعد ہندوستان کا جواب نسبتاً محدود رہا، لیکن بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگلی بار ردعمل کہیں زیادہ شدید ہو گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ محض فوجی طریقوں سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہوتا، اور تاریخ اس کی گواہ ہے۔

یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہر حملے پر ہندوستان کو ایک ہی طرز کا ردعمل دینا ہو گا؟ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق، ایسے سخت بیانات شاید محض سیاسی مقصد کے تحت دیے جا رہے ہوں تاکہ وزیر اعظم کی ’مضبوط لیڈر‘ کی شبیہ کو آئندہ ریاستی انتخابات میں استعمال کیا جا سکے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined