این سی ای آر ٹی: نصاب میں تبدیلی خوفناک یادوں اور زخموں کو تازہ کرنے جیسا... میناکشی نٹراجن

مہاتما گاندھی نے نواکھالی میں پیدل جا کر امن قائم کرنے کی کوششیں کیں، کلکتہ کی صورتحال سنبھالی۔ ان کی عظیم قربانی سے وقتی طور پر یہ جنون رکا۔ آج پھر اس جنون کو زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
i
user

میناکشی نٹراجن

نیشنل کاؤنسل فار ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کے نصاب میں وسیع ترمیم کی تجویز منظور کر لی گئی ہے۔ ہندوستان کی تقسیم کی تاریخ کا ازسرِنو تحریر کرنا بہت سی خوفناک یادوں اور زخموں کو دوبارہ تازہ کرنے جیسا ہے۔ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ تقسیم جناح، کانگریس اور آخری گورنر جنرل کی وجہ سے ہوئی۔ ہر واقعے کی کہیں نہ کہیں سے ابتدا ہوتی ہے۔ تقسیم کی لکیریں جب کھینچی گئیں اس سے بہت پہلے اس کی بنیاد تیار ہو چکی تھی۔

1857 کی جنگ میں مشرقی ہندوستان کی بڑی چھاؤنیوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے سیاسی ظلم کے خلاف حصہ لیا۔ اس جنگ کی خاص بات یہ تھی کہ ہندو اور مسلمان ساتھ لڑے۔ 1858 میں جب ملک براہ راست برطانوی حکومت کے تحت آ گیا، تو حکومت نے "پھوٹ ڈالو اور راج کرو" کی پالیسی کے تحت اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ برطانوی مورخ جیمز مِل نے قدیم دور کو ہندو، وسطی دور کو مسلم اور جدید دور کو ترقی یافتہ دور کا نام دیا۔ اس طرح تاریخ کو فرقہ وارانہ خانوں میں تبدیل کر دیا گیا۔


جدید تعلیم کا فائدہ اٹھا کر نئی بیداری کا جنم چھوٹے اشرافیہ طبقے میں ہوا۔ اس نئی بیداری نے نوآبادیاتی لوٹ مار، ظلم اور استحصال پر حملہ کیا۔ ساتھ ہی ہزاروں سال کی سماجی غلامی کو بھی چیلنج کیا۔ اس سے روایتی طاقت کے ڈھانچے کو چوٹ پہنچی۔ دونوں فرقوں کے بااختیار طبقے کو اپنا کنٹرول کمزور پڑتا نظر آیا۔ اسی طبقے سے فرقہ پرستی نے جنم لیا۔ رسم الخط اور زبان کے فرق سے فرقہ واریت کی ابتدا ہوئی۔

’بَنگ-بھنگ‘ (بنگال کی تقسیم) فرقہ وارانہ تفریق کا سب سے بڑا ہتھیار تھا۔ مسلم اکثریتی مشرقی بنگال کو کلکتہ کے مبینہ ’ہندو شکنجے‘ سے آزاد کرانے کے نام پر حکومت نے اس کا اعلان کیا۔ سرکاری سرپرستی میں آغا خان کی قیادت میں لارڈ مِنٹو کو میمورنڈم دیا گیا۔ محمد علی نے آبادی کے تناسب سے ہر جگہ مخصوص نمائندگی کا مطالبہ کیا۔ نواب سلیم اللہ کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ 1906 میں ڈھاکہ میں قائم ہوئی۔ ایک طرف مسلم لیگ بنی، دوسری طرف ہندو فرقہ واریت پنپ رہی تھی۔ متحدہ صوبہ بہار میں ہندی کو ہندو سے جوڑ کر فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا۔ 1909 میں پنجاب ہندو سبھا بنی، جس میں قاسم بازار کے راجہ نے مالی مدد کی۔ دونوں مذہبوں کے زمیندار و اعلیٰ افسران حکومت نواز تھے اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے بانی تھے۔ ان کو حکومت کی سرپرستی حاصل تھی، ان کے مطالبات پورے کیے جاتے تھے اور فرقہ پرست لیڈر اعزازات سے نوازے جاتے تھے۔


1909 میں فرقہ وارانہ بنیاد پر الیکشن حلقے بنائے گئے، ’کمیونل ایوارڈ‘ کا اعلان ہوا۔ مارلے-مِنٹو اصلاحات کے ذریعے مسلم ووٹروں کے لیے الگ حلقے مخصوص کیے گئے۔ اس پر مسلم اکثریتی علاقوں میں ہندو ریزرویشن کا مطالبہ ہونے لگا۔ حکومت نے مزید دشمنی کی زمین تیار کی۔ اس کی مثال پنجاب اور بنگال تھی۔ پنجاب میں مسلمان بڑے زمیندار تھے۔ اپنے ظلم سے توجہ ہٹانے کے لیے اپنے ماتحت کسانوں کو ہندو ساہوکاروں کے خلاف کھڑا کر دیا۔ ہندو ساہوکاروں نے اس پر فرقہ وارانہ رنگ چڑھا دیا، جبکہ اصل لڑائی زمین پر قبضے کی تھی۔ مشرقی بنگال میں زیادہ تر بڑے زمیندار ہندو تھے اور مسلم کسان ان کے ظلم کے خلاف لڑے۔ مالابار میں بھی یہی صورتحال تھی۔ فرقہ پرست عناصر ان تنازعات کو فرقہ وارانہ جھگڑوں میں بدلنے میں کامیاب رہے۔ اس طرح حکمرانوں کو موقع مل گیا۔

ہندوستانی آزادی کی تحریک کو ایک نئی روشنی ملی۔ گاندھی جنوبی افریقہ سے لوٹے۔ روسی انقلاب کے بعد دنیا میں جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ مرکزیت کے خلاف ماحول بنا۔ ہندوستان میں قوم پرستی نے فیصلہ کن شکل لینا شروع کی۔ عوام کے ذریعہ  معاشی شراکت داری و تعاون کے بڑھتے مطالبہ نے روایتی پونجی کے ڈھانچوں، زمین کی ملکیت اور جاگیرداری کو چیلنج پیش کرنا شروع کر دیا۔ کانگریس سمیت کئی ترقی پسند تنظیموں نے سماجی مساوات اور سرمایہ کی تقسیم کی حمایت کی۔ اس کے نتیجے میں زمین کی ملکیت، کسانوں کے حقوق، مزدور حقوق جیسے سوال اٹھنے لگے۔


طاقت کے روایتی ڈھانچے کو بکھرنے سے بچانا کنٹرول پرستوں کی ترجیح تھی۔ انہوں نے فرقہ واریت کا سہارا لے کر اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنا چاہا۔ وہ معاشی و سیاسی عدم مرکزیت، سماجی برابری کے خلاف تھے۔ انتخابات فرقہ وارانہ صف بندی کا موقع بن گئے۔ 1922 کے بعد لیگ اور ہندو مہاسبھا کی تنظیم نو ہوئی۔ ناگپور میں 1925 کو ہیڈگیوار نے آر ایس ایس کی بنیاد رکھی، جو ہندو عسکریت کی شروعات تھی۔

1937 کے صوبائی انتخابات کے نتائج حیران کن تھے۔ عوامی رائے فرقہ وارانہ جماعتوں کے خلاف آئی۔ الگ مسلم ووٹ بینک ہونے کے باوجود لیگ کو صرف 4.8 فیصد مسلم ووٹ ملے۔ ہندو مہاسبھا بھی معمولی رہی۔ کانگریس کی 28 ماہ کی حکومتوں نے فرقہ پرستی کے خلاف سخت اقدامات کیے۔ نئے زمینی اصلاحات کی طرف قدم بڑھائے۔


فرقہ پرستوں کو مذہبی کہنا غلط ہوگا۔ جناح مذہبی نہیں تھے، لیکن سماجی و معاشی بالادستی کے بچاؤ کے لیے فرقہ پرستی کی آڑ لیتے رہے۔ یہی طرز عمل ہندو فرقہ پرستوں کا بھی رہا۔ گاندھی کی مذہبیت انہیں آزادی کی تحریک کی طرف لے گئی، مگر ان کا چھوا چھوت کے خاتمے، مساوات اور جاگیرداری کو چیلنج کرنا بالادست طبقات کو ناگوار گزرا۔ دونوں فرقوں کے اشرافیہ کو کسان، مزدور، عورت، قبائلی، دلت اور پسماندہ طبقات کو ساتھ بٹھانا منظور نہ تھا۔ جب ’اسلام خطرے میں ہے‘ نعرہ لگا تو اس کے جواب میں ’ہندو خطرے میں ہے‘ کا نعرہ لگنا بھی شروع ہوا۔ یہ تنظیمیں مسولینی اور ہٹلر سے متاثر تھیں۔ جیسے ہٹلر نے کہا کہ جرمن اور یہودی ایک قوم نہیں ہو سکتے، ویسے ہی ان لوگوں نے کہا ہندو اور مسلمان ایک قوم نہیں ہو سکتے۔

ساورکر نے 1925 میں پہلی بار مذہب پر مبنی قوم کی وکالت کی۔ 1937 میں ہندو مہاسبھا کے اجلاس میں انہوں نے کہا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں۔ 1930 میں علامہ اقبال نے مسلم اکثریتی علاقوں کو ملا کر الگ ریاست کا تصور پیش کیا، جن میں پنجاب، سندھ، شمال مغربی سرحدی صوبہ، بلوچستان شامل تھے۔


کانگریس کی برطانوی حکومت سے مخالفت کے سبب استعفے کے بعد صوبائی حکومتیں گر گئیں، اور پھر برطانوی راج نے پورا کنٹرول سنبھال لیا۔ مسلم لیگ نے انتظامیہ سے سازباز کی اور 23 مارچ 1940 کو جناح نے لاہور اجلاس میں مسلم اکثریتی خودمختار صوبے کا مطالبہ رکھا۔ سندھ اور سرحد میں مسلم لیگ نے ہندو مہاسبھا کے ساتھ اتحادی حکومتیں چلائیں۔ دونوں نے ’ہندوستان چھوڑو تحریک‘ کی مخالفت کی۔ 3 مارچ 1943 کو سندھ اسمبلی میں جی ایم سید نے مسلمانوں کے لیے الگ قوم ہونے کی قرارداد منظور کرائی، تب ہندو مہاسبھا حکومت میں شامل تھی۔

کانگریس ہمیشہ سمجھوتے کے لیے تیار رہی۔ 1942 میں کرِپس مشن کے سامنے مسلم اکثریتی علاقوں کی خودمختاری تسلیم کی۔ 1944 میں گاندھی نے ان علاقوں کے خود ارادیت کے حق کو مانا۔ 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کو زبردست کامیابی ملی۔ 90 فیصد مسلم سیٹیں لیگ کے حصے میں آئیں۔ بنگال و سندھ میں کانگریس کی حکومت نہ بن سکی۔ 12 مئی 1946 کو لیگ نے کہا کہ پہلے تقسیم ہو، پھر آزادی۔ کانگریس نے بارہا کہا پہلے آزادی، پھر اقلیتوں کا مسئلہ حل ہو۔


جب لیگ کو اپنی بات بنتی نظر نہ آئی، تو انگریزوں پر مسلمانوں سے دھوکے کا الزام لگایا اور ’براہِ راست ایکشن‘ کی دھمکی دی۔ 16 اگست 1946 کو کلکتہ میں قتل عام برپا ہوا۔ تقریباً 5000 افراد ہلاک ہوئے۔ فرقہ واریت انتظامیہ تک گہرائی میں سرایت کر چکی تھی۔ ہندو، سکھ، مسلمان سب فرقہ واریت کے زہر میں ڈوب چکے تھے۔

18 جولائی 1947 کو برطانیہ کے شاہی مہر سے آزادیٔ ہند ایکٹ منظور ہوا، اور طے پایا کہ 15 اگست کو 2 خودمختار ملک (ہندوستان اور پاکستان) وجود میں آئیں گے۔ تقسیم کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہ تھا، کیونکہ دونوں طرف سے شدید فرقہ وارانہ جنون کو روکنے کا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ گاندھی نے نواکھالی میں پیدل جا کر امن قائم کرنے کی کوششیں کیں، کلکتہ کی صورتحال سنبھالی۔ ان کی عظیم قربانی سے وقتی طور پر یہ جنون رکا۔ آج پھر اس جنون کو زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سب میں ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک طویل، پیچیدہ واقعے کی تحقیق کو فوری سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ آج جو بلڈوزر راج، ووٹر لسٹ سے نام خارج کرنے کا عمل وغیرہ چل رہا ہے، وہ دلوں میں دائمی لکیریں کھینچ رہا ہے۔ ملک کے اندر ہی نئی سرحدیں بن گئی ہیں۔

(مآخذ: ’انڈیا انڈیپنڈنس اسٹرگل‘ اور ’پیپلز ہسٹری آف انڈیا‘)