ایک طرف حکمت عملی کی شکست، دوسری طرف دوستی بھی ختم!... اشوک سوین
’وشوگرو‘ ہندوستان کا عالمی قد اب اس سے کم نہیں ہو سکتا۔ ملک کی خارجہ پالیسی بے سمت ہے، اور چین کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی اس سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔

نریندر مودی کو ہندوستان کو ایک نئی عالمی بلندی تک پہنچانے والا رہنما ہونے کا دعویٰ کرتے اور اس پر زور دیتے ہوئے ایک دہائی سے زیادہ گزر چکی ہے۔ میڈیا اور تعلیم کے شعبے میں ان کے ماننے والوں کی فوج ہے جو خارجہ پالیسی میں ایک ’مودی نظریہ‘ کے ابھرنے کی بات کرتی ہے، جو شاید ان کے لگاتار غیر ملکی دوروں، اسٹیڈیموں میں ہندوستانی تارکین وطن کے ساتھ ریلیوں اور واشنگٹن سے ٹوکیو تک رہنماؤں کے ساتھ ’گلے ملنے‘ والے ٹی وی مناظر کے گرد گھومتی ہے۔ یہ تمام تشہیر چاہے جتنی بھی بھدی ہو، مقصد بالکل واضح تھا: مودی کو ایک ایسے عالمی رہنما کے طور پر پیش کرنا جس کی دنیا تعریف کرتی ہو، مخالفین جس سے ڈرتے ہوں اور ساتھی احترام کرتے ہوں۔ حقیقت کہیں زیادہ مایوس کن ہے، اور آزادی کے بعد ہندوستان کا عالمی قد کبھی اتنا کم نہیں رہا۔ مودی کی قیادت میں ہندوستان نے اپنے پڑوسی ممالک میں ساکھ کھو دی، طاقتور مخالفین سے دشمنی مول لی اور اب اسے واشنگٹن اور بیجنگ دونوں کی توہین آمیز نظراندازی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے وقت میں جب دنیا گروپوں میں بٹ رہی ہے اور علاقائی طاقتیں ہوشیاری سے اپنی پوزیشن مضبوط کر رہی ہیں، ہندوستان ایک قابل اعتماد دوست یا مستقل ساتھی کے بغیر تنہا پڑ گیا ہے۔
امریکہ کے معاملے میں یہ گراوٹ بہت واضح ہے۔ مودی نے ڈونالڈ ٹرمپ پر بڑا داؤ لگایا۔ یہاں تک کہ 2019 میں ان کے لیے کھلے عام انتخابی مہم بھی چلائی اور ’اب کی بار، ٹرمپ سرکار‘ جیسا نعرہ بھی دیا۔ مودی کو یقین تھا کہ ٹرمپ کے ساتھ ان کی ذاتی ہم آہنگی اسٹریٹجک فائدہ دے گی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اگست 2025 میں ٹرمپ نے ہندوستانی اشیاء پر 50 فیصد ٹیرف لگا دیا، جس سے عشروں پر محیط تجارتی تعلقات متاثر ہوئے۔ انہوں نے نہ صرف پاکستان کے آرمی چیف کو وائٹ ہاؤس بلایا اور اسلام آباد کے ساتھ تیل معاہدے پر دستخط کیے، بلکہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ جھڑپ کے بعد بار بار جنگ بندی کرانے کی خود ستائشی بھی کی۔ نئی دہلی کے لیے یہ ایک سفارتی شکست تھی۔ امریکہ نے ہندوستان کو پاکستان کے برابر لا کھڑا کیا، جس سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور کی محنت سے حاصل شدہ سبقت ضائع ہو گئی۔
مودی کو سبق حاصل کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو ایک امریکی صدر کی مرضی کے حوالے کر دیا اور جب اس صدر نے منہ موڑا تو ہندوستان کے پاس کچھ نہ بچا۔ ماضی کے وزرائے اعظم کے برعکس، جنہوں نے تعلقات کو غیر سیاسی رکھا، مودی نے تعلقات کو سیاسی رنگ دیا۔ انہوں نے ٹرمپ کا کھل کر ساتھ دے کر ڈیموکریٹس کو دور کر دیا اور جب ٹرمپ نے کنارہ کشی اختیار کی تو کوئی ریپبلکن آگے نہ آیا۔ اب واشنگٹن میں ہندوستان کا کوئی ادارہ جاتی اثر باقی نہیں بچا۔
ٹرمپ کے اقدامات سے مایوس مودی نے چین کا رخ کیا۔ 2025 میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کے لیے تیانجن کا ان کا مجوزہ دورہ 7 سال میں ان کا پہلا چین کا سفر ہوگا۔ یہاں اعتماد کے بجائے مایوسی جھلکتی ہے۔ چینی وزیر خارجہ پہلے ہی دہلی آ کر نرمی سے ہندوستان کو یاد دلا چکے ہیں کہ وہ کتنی زمین سے محروم ہو چکا ہے۔
بیجنگ مودی کی پرانی باتوں/ فیصلوں کو بھولا نہیں ہے: امریکہ کے ساتھ لاجسٹک ایکسچینج معاہدہ، 2017 میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا بائیکاٹ اور گزشتہ 5 سالوں سے چین کے خلاف بیان بازی۔ ان معاملوں میں چین نے معاف نہیں کیا ہے۔ 2020 میں چینی فوجیوں نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر قبضہ کر لیا اور تب سے وہیں جما ہوا ہے۔ اس تصادم کے دوران بیجنگ نے نہ صرف ہندوستان کو بے عزت کیا، بلکہ پاکستان کے لیے اپنی حمایت دوگنی کر دی۔
چینی لالچ سراسر حکمت عملی پر مبنی ہے۔ وہ ہندوستان کو نایاب معدنیات، کھاد اور صنعتی مشینری کا وعدہ دے رہا ہے، لیکن بدلے میں کچھ نہیں دے رہا۔ اس نے پاکستان کی حمایت میں کوئی کمی نہیں کی، بلکہ دہلی کے بعد چینی وزیر خارجہ کابل اور پھر اسلام آباد گئے تاکہ چین-افغانستان-پاکستان مذاکرات میں حصہ لے سکیں۔ بیجنگ نے نہ اپنا مؤقف بدلا، نہ اپنے عزائم۔ وہ مودی کی کمزوری سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ برسوں کی دشمنی کے بعد مودی کا یوں بیجنگ کی طرف جھکنا ہندوستان کو ایک موقع پرست اور ناقابل اعتماد ساتھی کے طور پر پیش کرتا ہے۔
آج کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ واشنگٹن ہندوستان کو ٹرمپ کے رحم و کرم پر ایک درخواست گزار کے طور پر دیکھتا ہے، جبکہ بیجنگ مودی کو ایک کمزور رہنما سمجھتا ہے۔ ہندوستان دونوں کو خود سے دور کر چکا ہے، اور اس متوازن خارجہ پالیسی کو بھی کھو بیٹھا ہے جو کبھی منموہن سنگھ نے قائم رکھی تھی۔
ٹرمپ کے ٹیرف اور چین کی چالوں سے پہلے ہی ہندوستان کی علاقائی حیثیت بگڑنے لگی تھی۔ مودی کا داخلی قوم پرستی کا بیانیہ پروسی ممالک کی پالیسی پر بھی اثر انداز ہوا۔ پاکستان کے خلاف سخت رویہ، کشمیر کو واپس لینے کی دھمکیاں اور آرٹیکل 370 کی منسوخی جیسے اقدامات نے دشمنی کو بڑھا دیا۔ جواب میں چین نے پاکستان کی حمایت بڑھا دی۔ نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی تعلقات بگڑ چکے ہیں۔ جہاں ہندوستان کبھی ثقافتی قربت اور اعتماد کا مرکز تھا، اب وہاں شک اور ناراضگی ہے۔ چین بندرگاہوں کی تعمیر، سڑکوں کی فنڈنگ اور جنوب ایشیا پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے تیزی سے کام کر رہا ہے۔
ایک اندرونی طور پر منقسم ملک کے لیے بیرون ملک طاقت کا مظاہرہ آسان نہیں ہوتا۔ مودی حکومت کی ہندوتوا پالیسی نے ہندوستان کو بانٹ دیا ہے۔ مسلمان، عیسائی، سکھ اور دلت حاشیے پر ہیں۔ اختلافِ رائے کا کچلاؤ، مظاہرے اور فرقہ وارانہ تشدد عام ہیں۔ عالمی ادارے ہندوستان کو اکثریتی آمریت کہنے لگے ہیں۔ ایسی ساکھ کے ساتھ ہندوستان پر عالمی اعتماد کم ہو رہا ہے۔ سرمایہ کار اس ماحول سے محتاط ہیں جہاں نظریہ قانون سے بالا ہو۔ مودی کی بیرون ملک نمائش پسند سفارت کاری اس کمزوری کو چھپا نہیں سکی۔
جو تصویر ابھرتی ہے، وہ یہ کہ ہندوستان کا کوئی دوست نہیں بچا۔ امریکہ دشمنی کی راہ پر ہے، چین مودی کو ایک موقع پرست ساتھی سمجھتا ہے، روس چین کے ساتھ مضبوطی سے جڑ چکا ہے اور ہندوستان کے پڑوسی چین کی طرف جھک رہے ہیں۔ ’وشوگرو‘ بننے کی جو کوشش مودی اور ان کے حمایتی کر رہے تھے، وہ تو دور، ہندوستان کی بین الاقوامی ساکھ آج شاید اپنے سب سے نچلے مقام پر ہے۔
زمین واپس پانے کے لیے ہندوستان کو مودی کے نمائشی قوم پرستی سے ہٹ کر، ہمسایوں کے ساتھ امن، اندرون ملک شمولیتی سوچ اور خارجہ سطح پر حقیقت پسندانہ غیر جانبداری کی طرف لوٹنا ہوگا۔ یہی راستہ تھا جو ہندوستان کو کبھی ترقی اور بھروسہ دلاتا تھا۔ یہ پھر ممکن ہے، اور راستے واضح ہیں۔
واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان لٹکتی ہوئی موجودہ خارجہ پالیسی، اور ان دونوں سمیت پڑوسی ممالک کی بے اعتمادی ہندوستان کو عالمی منظرنامے سے مزید غیر متعلق کر سکتی ہے۔ دنیا میں اپنی جگہ بچانے کے لیے ہندوستان کو اپنی جمہوری بنیاد کو بحال کرنا ہوگا اور ایک نئی خارجہ پالیسی ترتیب دینی ہوگی جو ڈرامائی نہ ہو بلکہ حکمت عملی پر مبنی ہو۔ بدقسمتی سے، مودی میں اس طرح کی تبدیلی کے لیے کوئی خواہش نظر نہیں آتی۔
(مضمون نگار سویڈن کی اوپسلا یونیورسٹی میں پیس اینڈ کانفلکٹ ریسرچ کے پروفیسر ہیں۔)