فکر و خیالات

بلاشبہ عید کی خوشیوں سے فیضیاب ہوں، ساتھ ہی اپنے بھائیوں کو بھی یاد رکھیں

قابل مبارک باد ہیں وہ لوگ جنھوں نے اپنے رمضان کو اس طرح گزارا کہ ان کے گیارہ مہینے بھی سنور گئے۔

عید الفطر
عید الفطر تصویر یو این آئی

عید خوشیوں کے بانٹنے کا تہوار ہے۔ عید کہتے ہی اس خوشی کو ہیں جو لوٹ لوٹ کر آتی ہو اور ہر سال آتی ہو۔ اللہ کا شکر ہے کہ امسال پھر عید آ گئی۔ عید کا موقع اگرچہ صدیوں سے خوش ہونے اور خوشی بانٹنے کا موقع رہا ہے، لیکن اس سال کی عید کچھ مخصوص ہے۔ اس لیے کہ گزشتہ دو سالوں سے لگاتار کورونا کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔ اس وبا کے چلتے عید بھی چپکے سے آئی اور چپکے سے چلی گئی۔ کورونا کی وبا کے مہیب سائے ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئے ہیں، تاہم بڑی حد تک قابو میں ہیں۔ اس لیے یہ عہد مخصوص ہے کہ اس میں نسبتاً خوشیاں بانٹنے کا موقع زیادہ ہے۔ اگرچہ اب بھی کورونا کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے اس کی سخت ضرورت ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ جیسے سماجی فاصلے رکھنا، غیر ضروری ہاتھ ملانے سے پرہیز کرنا اور زیادہ بھیڑ جمع کرنا وغیرہ۔

Published: undefined

کورونا کی احتیاطی تدابیر کے ساتھ عید منائیں اور اس میں خاص طور پر اپنے ان بھائیوں کا زیادہ خیال کریں جنھیں کورونا کے ایام میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جن کے عزیز رخصت ہو گئے، یا جن کے کاروبار متاثر ہوئے۔ اس لیے کہ عید تو نام ہی اس کا ہے کہ اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا کیا جائے اور اپنے بھائیوں کو خوشیوں میں شریک کیا جائے۔

Published: undefined

رمضان المبارک کے تعلق سے ایک صدقہ واجب ہوتا ہے جو صدقۃ الفطر کہلاتا ہے۔ یہ صدقہ اگرچہ رمضان المبارک کے بارے میں ہے لیکن یہ واجب ہوتا ہے عید کی صبح اور عید کی نماز سے پہلے پہلے اس کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس صدقہ کے دو مقصد ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ اس کے ذریعے انسان کے روزے میں جو کمی رہ جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس کو دور کر دیتا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ مساکین و فقرا کو عید کی خوشیوں میں شریک کرنے کا ذریعہ ہے۔ اگر غائر نظر سے دیکھا جائے تو اللہ رب العزت کی حکمت و مصلحت یہ ہے کہ عید کے دن سب لوگ خوش ہوں اور سب آسودہ ہوں۔ اس لیے یہ صدقہ واجب فرمایا۔ یہ دراصل عید کی خوشیوں کو بانٹنے کا ایک طریقہ ہے۔

Published: undefined

رمضان المبارک کا مہینہ بڑی فضیلوں اور برکتوں کا ہے۔ اس ماہ مبارک میں اللہ کی نعمتیں ایسے برستی ہیں جیسے آندھی میں پیڑ برستے ہیں۔ فرائض کا ثواب ستر گنا ہو جاتا ہے۔ نوافل کا ثواب فرائض کے برابر ہو جاتا ہے۔ شرکش شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں۔ اس ماہ مبارک میں ایک ایسی رات آتی ہے جس میں تقدیر کے فیصلے بیان کیے جاتے ہیں۔ وہ رات ایسی بابرکت اور سراپا خیر و سلامتی ہوتی ہے کہ وہ ایک ہی رات ایک ہزار مہینوں سے افضل ہوتی ہے۔ اس رات حضرت جبرئیل اور دوسرے فرشتے خصوصی طور پر دنیا میں تشریف لاتے ہیں۔ اسی مبارک رات میں دنیائے انسانیت پر اللہ رب العزت نے سب سے بڑا انعام فرمایا تھا۔ یعنی قرآن مجید کو نازل فرمایا تھا۔ ان فضائل کے علاوہ اس ماہ مبارک کے اور بھی بے شمار فضائل ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ یہ پورا مہینہ شہر المواساۃ یعنی غم خواری کا مہینہ کہلاتا ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اس پورے مہینہ میں ہمدردی اور غم خواری میں اضافہ ہونا چاہیے۔

Published: undefined

رمضان المبارک کے بعد جو پہلی رات آتی ہے، جسے عرف عام میں چاند رات کہا جاتا ہے، روایتوں میں اس کو ’لیلۃ الجائزہ‘ یعنی اجرت کی رات کہا جاتا ہے۔ یعنی اس رات میں اللہ رب العزت اپنے روزہ دار بندوں کو ان کی مہینہ بھر کی عبادت کا بدلہ دیتے ہیں۔ لیلۃ الجائزہ تو گزر گئی، روزہ داروں نے اپنے رب کی رحمتوں سے حسب توفیق حصہ پا لیا، اب اس کا شکرانہ یہ ہے کہ عید کے دن کی خوشیاں مزید بانٹیں، ضرورت مندوں کی ضرورت کا خیال رکھیں، محتاجوں کی حاجت روائی کریں، بلاشبہ خود بھی عید کی تمام خوشیوں سے فیض یاب ہوں، یعنی نئے کپڑے پہنیں، خوشبو میں خود کو بسا لیں، سوئیوں کے لچھے کی دعوت اور مزعفر و شیر کے خوش ذائقہ نوالوں سے فیض یاب ہوں، لیکن اپنے بھائیوں کو بھولیں نہیں۔ ان کو بھی یاد رکھیں اور چاہے خود کو کچھ قربانی بھی دینی پڑے لیکن اس کی پوری کوشش ہو کہ آپ کے گھر کی خوشی آپ کے کسی بھائی کے گھر تک ضرور پہنچے۔

Published: undefined

عیدالفطر رمضان المبارک کی رحمتوں، برکتوں اور عبادتوں کے صلے میں آئی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ مبارک موقع گویا نئے سال کا آغاز ہے۔ مخصوص نیکیوں کا موسم رخصت ہوا، اب دراصل اس ماہ مبارک کے دوران حاصل کی ہوئی تربیت کو عملی جامہ پہنانے کا موقع ہے۔ بعض بزرگوں سے سنا ہے کہ انسان کا رمضان المبارک کا مہینہ جیسا گزرتا ہے، بقیہ گیارہ مہینے بھی اس جیسے ہی گزرتے ہیں۔ یعنی اس ماہ مبارک میں اللہ رب العزت کے ساتھ جیسا تعلق استوار کر لیا ویسا ہی تعلق بقیہ گیارہ مہینوں میں باقی رہے گا۔

Published: undefined

قابل مبارک باد ہیں وہ لوگ جنھوں نے اپنے رمضان کو اس طرح گزارا کہ ان کے گیارہ مہینے بھی سنور گئے۔ البتہ جو لوگ اس میں کسی حد تک محروم رہ گئے ان کے لیے دوسری خوش خبری ہے۔ وہ یہ ہے کہ وہ آج ہی یہ نیت کریں کہ ان گیارہ مہینوں کو اس طرح گزاریں گے کہ جب اللہ رب العزت اپنے فضل سے اگلا رمضان نصیب فرمائے تو وہ ایسے بسر ہو جیسے اس کے بسر کرنے کا حق ہے۔ یہ نیت رکھیں گے اور سال بھر اس کی فکر کریں گے تو ان شاء اللہ اس ماہ مبارک کی پوری نعمتوں سے بہرہ اندوز ہونے کا موقع ملے گا۔

Published: undefined

سب سے ضروری جو کام ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ رب العزت کی دی ہوئی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنا، اور دوسرا اپنی کمیوں اور کوتاہیوں پر توبہ و استغفار کرنا۔ شکر کرنے سے اس کی نعمتوں میں اضافہ ہوگا اور استغفار کرنے سے گناہ معاف ہوں گے اور اس کے فضل کی بارش ہوگی۔ اور شکر و توبہ کا موقع جس طرح رمضان المبارک میں تھا، آج بھی ہے اور سال کے بقیہ ایام میں بھی رہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی نعمتوں کا صحیح ادراک کرائے تاکہ دل کی گہرائی سے اس کا شکریہ ادا کریں اور رمضان المبارک اور عید الفطر کی مبارک ساعتوں سے ہم سب کو پھر مستفید فرمائے۔

مفتی محمد مشتاق تجاروی، اسسٹنٹ پروفیسر، جامعہ ملیہ اسلامیہ

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined

,
  • سیبی کی کارروائی ایک بار پھر اڈانی گروپ، بی جے پی اور ان کے حامیوں کے جھوٹے دعووں پر مہر: کانگریس

  • ,
  • ’لگتا ہے وزیر اعظم ایمس کا جائزہ لینے آ رہے ہیں‘، پی ایم مودی کے دربھنگہ دورہ پر تیجسوی یادو کا طنز