فکر و خیالات

’اپنوں پہ ستم غیروں پہ کرم؟‘

ہندوستان میں اقلیتوں پر مظالم پر حکمراں جماعت خاموش ہے، مگر بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے خلاف مظالم پر احتجاج کر رہی ہے، یہ دوہرے رویے کی مثال ہے

<div class="paragraphs"><p>بنگلہ دیش کے خلاف ہندوستان میں احتجاج / آئی اے این ایس</p></div>

بنگلہ دیش کے خلاف ہندوستان میں احتجاج / آئی اے این ایس

 
IANS

ظلم کہیں بھی ہو اور کسی پر بھی ہو ناقابل قبول ہے۔ اس کی ہر حال میں مذمت کی جانی چاہیے۔ اور اقلیتوں پر مظالم کی تو کسی بھی طرح حمایت نہیں کی جا سکتی۔ خواہ اپنے ملک میں ہو یا دوسرے ملکوں میں۔ لیکن اگر اپنے ملک کی اقلیتوں پر ظلم ڈھایا جائے اور دوسرے ملکوں میں اقلیتوں پر توڑے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کی جائے تو اسے دوہرا رویہ کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کی موجودہ حکومت اور حکمراں جماعت یا اس جماعت سے وابستہ یا اس سے نظریاتی ہم آہنگی رکھنے والے عناصر یہاں اقلیتوں پر توڑے جانے والے مظالم پر تو خاموش ہیں لیکن بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حکمراں جماعت اور ہندوتووادی تنظیموں اور عناصر کی جانب سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں اور ظلم ڈھانے والوں کی حمایت بھی کی جا رہی ہے۔ ایسے عناصر کو حکومت کی شہہ حاصل ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر حکومت بھی چپ رہتی ہے اور حکمراں جماعت بھی۔ اس کے دوہرے رویے کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی دوسرا ملک یا کوئی عالمی ادارہ ہندوستان میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف تشویش ظاہر کرتا ہے یا ان کے ساتھ بہتر سلوک کا مطالبہ کرتا ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ اس میں کسی دوسرے ملک یا ادارے کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن یہی حکومت اور یہی حکمراں جماعت دوسرے ملک کے اقلیتوں کا مسئلہ اٹھاتی ہے۔ اس وقت اسے اس کا احساس نہیں ہوتا کہ وہ اس ملک کے اندرونی معاملے میں مداخلت کر رہی ہے۔

Published: undefined

بنگلہ دیش کا معاملہ بالکل ایسا ہی ہے۔ ہم ایک بار پھر وہاں اقلیتوں پر توڑے جانے والے مظالم پر احتجاج کرتے اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔ وہاں کے مسلمانوں کو اپنی ہندو اقلیت کا تحفظ کرنا چاہیے۔ جو خبریں آر ہی ہیں اگر وہ درست ہیں تو وہ تشویش ناک ہیں۔ ایسے واقعات کو روکنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ حالانکہ جب پانچ اگست کو شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ پلٹا گیا تھا اور وہ بھاگ کر ہندوستان آگئی تھیں تو اس وقت بھی اقلیتوں کے مکانوں، دکانوں او ران کی عبادت گاہوں پر حملے ہوئے تھے۔ اس وقت مسلم نوجوان مختلف مندروں کے باہر کھڑے ہو کر ان کی حفاظت کر رہے تھے۔ لیکن اگر ایک بار پھر وہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے تو اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

ہندو مذہب کی ایک بین الاقوامی تنظیم ”انٹرنیشنل سوسائٹی فار کرشن کنسس نیس“ (اسکان) کے ایک سابق مہنت چنمے کرشن داس کی گرفتاری پر ہندوستان اور یہاں کی ہندو تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں۔ لیکن بنگلہ دیش کی حکومت کا کہنا ہے کہ انھیں ان کے مذہبی خیالات یا ان کے مذہب کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا گیا ہے بلکہ بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ وہ بنگلہ دیش کے شہر چٹا گانگ میں ایک مظاہرے کی قیادت کر رہے تھے۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے مظاہرے کے دوران وہاں کے قومی پرچم کی توہین کی تھی۔ لہٰذا ان کے خلاف کیس قائم کیا گیا، انھیں گرفتار کیا گیا۔ان کا مقدمہ ایک عدالت میں پیش ہوا اور عدالت نے انھیں ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔ عدالت میں ان کے دفاع کے لیے کوئی وکیل بھی نہیں مل رہا ہے۔

Published: undefined

انہیں 25 نومبر کو گرفتار گیا تھا جس کے خلاف ہندوستان میں احتجاج ہو رہا ہے۔ ہندوستانی وزارت خارجہ نے ان کی گرفتاری اور عدالت کی جانب سے ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کو افسوس ناک قرار دیا ہے۔ وزارت خارجہ نے بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر مبینہ حملوں پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ اس پر بنگلہ دیش نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ اس بیان میں درست حقائق پیش نہیں کیے گئے ہیں جو کہ دو ہمسایہ ملکوں کے دوستانہ تعلقات کے منافی ہے۔ ادھر ایک ہندو تنظیم ”ہندو سنگھرش سمیتی“ نے ریاست تری پورہ کے شہر اگرتلہ میں بنگلہ دیش کے اسسٹنٹ ہائی کمیشن کے باہر احتجاج کیا۔ اس دوران مشتعل ہجوم نے ہائی کمیشن کی عمارت پر حملہ کیا جس کے بعد مشن نے تاحکم ثانی ویزا اور تمام سفارتی خدمات معطل کردی ہیں۔ اس واقعے کے فوراً بعد بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے الزام لگایا کہ مظاہرین کو عمارت میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی اور انہوں نے بنگلہ دیش کے قومی پرچم کی بھی توہین کی۔ اس نے حملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان سے اپنے سفارتی عملے کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ حالانکہ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس واقعے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ سفارتی املاک کو کسی بھی حال میں نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔

تری پورہ کی پولیس نے اس سلسلے میں سات افراد کو گرفتار کیا ہے اور تین پولیس سب انسپکٹرز کی معطلی کے ساتھ چار اعلیٰ پولیس اہل کاروں کے خلاف کارروائی کی ہے۔ دوسری جانب بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے ہندوستانی ہائی کمشنر پون ورما کو وزارت خارجہ طلب کرکے اس واقعے پر احتجاج کیا ہے۔ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں قائم مقام سکریٹری خارجہ ریاض حمید اللہ نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ پون ورما نے بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کا اعادہ کیا اور کہا کہ کوئی ایک واقعہ باہمی تعلقات کی راہ میں آڑے نہیں آ سکتا۔

Published: undefined

خیال رہے کہ چنمے کرشن داس کی گرفتاری کے خلاف بنگلہ دیش میں بھی احتجاج ہو رہا ہے۔ ہندوستانی میڈیا رپورٹس کے مطابق بنگلہ دیش میں ہندووں اور ان کی املاک کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہاں اقلیتیں محفوظ ہیں۔بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کے پریس سیکریٹری شفیق الاسلام نے میڈیا سے گفتگو میں یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے ملک میں اقلیتوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ حکومت اس بات کی پابند ہے کہ چنمے داس سے متعلق غیر جانب دار اور شفاف قانونی کارروائی ہو۔

قابل ذکر ہے کہ اگرتلہ میں جس ہندو تنظیم نے مظاہرہ کیا اور بنگلہ دیشی ہائی کمیشن کے آفس میں ہنگامہ کیا وہ بالکل نوزائیدہ ہے اور وہ بمشکل پندرہ روز قبل قائم ہوئی ہے۔ دراصل حکومت کی جانب سے حاصل شہہ اور رعایتوں کی وجہ سے نئی نئی تنظیمیں وجود میں آرہی ہیں جو یہاں کی اقلیتوں کے خلاف تو ہنگامہ کرتی ہی ہیں دوسرے ملک کے معاملات میں بھی مداخلت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو جس طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ کہیں بھی اور کسی کو بھی پکڑ کر اس سے جے شری رام کا نعرہ لگاوایا جاتا ہے اور انکار کرنے پر اس کو زدوکوب کیا جاتا ہے۔ چند روز قبل مدھیہ پردیش میں تین نابالغ مسلم بچوں کو جس طرح کچھ افراد مار رہے ہیں وہ انتہائی شرمناک ہے۔ ان بچوں سے بھی جے شری رام کے نعرے لگوائے جا رہے تھے۔

Published: undefined

آر ایس ایس کے نظریات سے اتفاق رکھنے والی تنظیمیں تو یہ سب کر ہی رہی ہیں وہ لوگ بھی کر رہے ہیں جو کسی تنظیم سے وابستہ نہیں ہیں۔ ایک چلتی ٹرین میں ایک پولیس جوان کے ہاتھوں تین مسلمانوں کے قتل کا معاملہ ہو یا مہاراشٹر میں ہندو مسافروں کے ہاتھوں مسلم بزرگ کو زدوکوب کرنا ہو یا پھر کسی مسلمان کی لنچنگ کرنا ہو، یہ سب اب بہت آسان ہو گیا ہے۔ لیکن یہی لوگ بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کو شرم نہیں آتی کہ یہ کس منہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ ہم پھر کہتے ہیں کہ اقلیتوں کا تحفظ اکثریت کی ذمہ داری ہے۔ اگر بنگلہ دیش کی مسلم اکثریت اپنی ہندو اقلیت کا تحفظ نہیں کر پاتی تو یہ تشویش ناک ہے اور قابل مذمت ہے۔ یہی فارمولہ ہندوستان پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ یہاں بھی اقلیتوں کے تحفظ کی ذمہ داری ہندو اکثریت کی ہے۔ لیکن وہ ان کو تحفظ فراہم کرناتو دور کی بات ہے ان کو نشانہ بنا رہی ہے اور اپنے اس گھناونی حرکت پر فخر بھی کر رہی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined