سلیل چودھری
ہندوستانی سنیما کی دنیا میں جب بڑے موسیقاروں کے نام لیے جاتے ہیں تو سلیل چودھری کا ذکر ضرور آتا ہے۔ 19 نومبر 1923 کو آسام میں پیدا ہونے والے سلیل چودھری کا بچپن موسیقی سے وابستہ ماحول میں گزرا۔ ان کے والد ڈاکٹر تھے مگر خود فنونِ لطیفہ سے دلچسپی رکھتے تھے۔ بڑے بھائی آرکیسٹرا سے وابستہ تھے جس کی وجہ سے سلیل کو کم عمری میں ہی مختلف سازوں سے شناسائی حاصل ہوگئی۔ بانسری، پیانو اور وائلن بجانے کی مشق نے انہیں اپنی موسیقی کے سفر کے لیے تیار کر دیا۔
Published: undefined
کلکتہ میں تعلیم کے دوران سلیل چودھری بھارتیہ جن ناٹیہ سنگھ سے وابستہ ہوئے۔ 1940 کی دہائی میں جب آزادی کی تحریک عروج پر تھی تو انہوں نے اپنے نغموں کو جدوجہدِ آزادی کا ہتھیار بنایا۔ ان کے گیت ’بچارپوتی تومار بیچار‘ اور ’ڈھیو اتچے تارا ٹوٹچے‘ نے نوجوانوں میں نیا جوش بھرا، یہاں تک کہ برطانوی حکومت نے ان پر پابندی عائد کر دی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب سلیل نے موسیقی کو صرف تفریح نہیں بلکہ سماجی اور سیاسی اظہار کا ذریعہ بنایا۔
1950 میں وہ ممبئی آئے اور بمل رائے نے انہیں اپنی فلم دو بیگھہ زمین (1953) کے لیے موسیقی دینے کا موقع دیا۔ ’’آ ری آ نندیا‘‘ اور ’’دھرتی کہے پکار کے‘‘ جیسے گیتوں نے ثابت کیا کہ ایک نیا موسیقار اپنی منفرد پہچان کے ساتھ آیا ہے۔ یہ فلم نہ صرف ہندی سنیما کی کلاسک کہانی بنی بلکہ اس کی موسیقی نے بھی لوگوں کو گہرا اثر دیا۔
Published: undefined
سلیل چودھری کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ انہوں نے مشرقی کلاسیکی، بنگالی لوک اور مغربی سازوں کو ایک ساتھ جوڑ کر نئی طرز پیدا کی۔ ان کے نغموں کی فہرست میں کچھ ایسے گیت ہیں جو آج بھی زندہ ہیں: ’سہانا سفر اور یہ موسم حسین‘ (مدھومتی، 1958)، ’دل تڑپ تڑپ کے کہہ رہا‘ (مدھومتی، 1958)، ’اتنا نہ مجھ سے تُو پیار بڑھا‘ (چھایا، 1961)، ’او سجنا برکھا بہار آئی‘ (پرکھ، 1960)، ’کہیں دور جب دن ڈھل جائے‘ (آنند، 1971)، ’زندگی کیسی ہے پہیلی‘ (آنند، 1971)، ’اے میرے پیارے وطن‘ (کابلی والا، 1961، گلوکار)، ’رجنی گندھا پھول تمہارے‘ (رجنی گندھا، 1974)، ’رِم جھِم کے یہ پیارے پیارے گیت لیے‘ (انوراگ، 1972)۔ یہ گانے محض نغمے نہیں بلکہ وقت سے ماورا تخلیقات ہیں جو آج بھی سامعین کو مسحور کر دیتی ہیں۔
سلیل چودھری کے حب الوطنی پر مبنی چند نغمے شہکار ہیں۔ ’اے میرے پیارے وطن‘ آج بھی ہر سننے والے کی آنکھوں کو نم کر دیتا ہے۔ اسی طرح دو بیگھا زمین کے گیت کسان اور محنت کش طبقے کی کہانی سناتے ہیں۔ دوسری طرف ’زندگی کیسی ہے پہیلی‘ جیسا فلسفیانہ گانا یا ’کہیں دور جب دن ڈھل جائے‘ جیسا اُداس نغمہ انسانی وجود کے گہرے سوالات کو چھوتا ہے۔
Published: undefined
ستر کی دہائی کے بعد ممبئی کی چمک دمک انہیں غیر مانوس محسوس ہونے لگی اور وہ کلکتہ واپس لوٹ گئے جہاں انہوں نے کئی بنگالی نغمے تخلیق کیے۔ ان کا دائرہ ہندی تک محدود نہیں تھا، انہوں نے ملیالم، تمل، تیلگو، کنڑ، گجراتی، اوڑیہ اور مراٹھی سنیما کو بھی اپنی دھنوں سے نوازا۔
1958 میں مدھومتی کے لیے انہیں فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ 1998 میں انہیں سنگیت ناٹیہ اکادمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ تقریباً 75 ہندی فلموں اور درجنوں غیر ہندی فلموں میں موسیقی دے کر سلیل چودھری نے ایک وسیع ورثہ چھوڑا۔
5 ستمبر 1995 کو یہ جادوگر موسیقار دنیا کو الوداع کہہ گیا، مگر ان کے نغمے آج بھی زندہ ہیں۔ ان کی موسیقی یہ یاد دلاتی ہے کہ گیت محض تفریح نہیں بلکہ زندگی کے دکھ، سکھ، خواب اور وطن کی محبت کے آئینہ دار بھی ہوتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز
سوشل میڈیا
تصویر: محمد تسلیم