کیوں نہ کہوں: آپ خود اشیا ہیں کیونکہ کوئی چیز مفت نہیں ملتی

جس نے بھی کہا ہے بالکل صحیح کہا ہے کہ اگر آپ کسی اشیا کے لئے کوئی قیمت ادا نہیں کر رہے یا کوئی اشیا آپ کو مفت مل رہی ہے تو سمجھ لیجیے آپ خود اشیا ہیں، کیونکہ مفت میں کوئی چیز نہیں ملتی۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

سید خرم رضا

ہمارے بزرگ اپنے زمانے کے قصے سناتے وقت یہ کہا کرتے تھے کہ ارے تم کیا کھاؤگے، کھایا تو ہم نے ہے یا تم میں وہ طاقت کہاں جو ہمارے زمانے کے لوگوں میں تھی۔ ظاہر ہے جو ہمارے بزرگ ہم سے کہتے تھے کچھ ایسا ہی ہم بھی اپنی نئی نسل سے کہیں گے یا شائد اس کی ضرورت نہ پڑے، کیونکہ ان کے پاس یہ سب سننے کے لئے وقت بھی نہیں ہوگا، کیونکہ ایسا سب سننے کے لئے ان کے پاس جدید سائنسی آلات ہوں گے۔ شائد وہ زمانہ جلد ہم بھی دیکھ لیں کہ بس سوچنے بھر کی دیر ہوگی اور چیز حاضر ہو جائے گی۔ شائد ایسا کچھ جنت کا ذکر کرتے وقت بھی کیا جاتا ہے۔

بس سوچو اور ہو جائے، اس تعلق سے ہم بچپن میں علادین کے چراغ کی کہانیاں سنا کرتے تھے کہ جس کو وہ چراغ حاصل ہوجاتا تھا اس کے تو مزے آجاتے، وہ جو چاہتا ہو جاتا۔ کیا ہم اسی جانب گامزن ہیں؟ کیا جس جانب ہم گامزن ہیں وہ ہی جنت کا تصور ہے؟ میری نظر میں ہم اس جانب تو بہت تیزی کے ساتھ گامزن ہیں جہاں جو سوچو وہ حاضر ہے لیکن اس کو جنت کہنا ٹھیک نہیں ہوگا۔


ابھی وہاٹس ایپ کی پرائیویسی پالیسی کے تعلق سے بہت ساری خبریں آ رہی ہیں اور اس میں جہاں ایک پہلو یہ ہے کہ آپ کی تمام معلومات ان ایپس کے مالکان کے پاس ہوگی وہیں یہ بھی ہے کہ یہ ایپس کس طرح آپ کے ذہن پر نہ صرف حاوی رہیں گے بلکہ آپ کی سوچ کو بھی متاثر کریں گے۔ ہم سب نے اس بات کا بخوبی مشاہدہ کیا ہوا ہے کہ ہم گوگل پر کوئی چیز ڈھونڈتے ہیں یا وہاٹس ایپ پر ذکر کرتے ہیں تو اس چیز کے متعلق معلومات ہمارے فیس بک اکاؤنٹ پر آنے لگتی ہے یعنی ادھر ہم نے سوچا اور ادھر ہمارے سامنے متبادل آنے لگتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاٹس ایپ، فیس بک اور انسٹا گرام کے مالکان ایک ہی ہیں اور ہماری ہر معلومات وہاں آپس میں شئیر ہوتی ہیں۔

کووڈ کے دوران ہی نیٹ فلکس پر ایک فلم آئی تھی جس کا نام تھا ’دی سوشل ڈائی لیما‘ یعنی اگر آسان اردو زبان میں کہیں تو ’سماجی تذبذب‘ کہا جا سکتا ہے۔ اس فلم میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کام کرنے والے سابق ملازمین نے اپنی رائے اور کام کے دوران اپنے تجربات سانجھا کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کس طرح یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کمپنیاں آپ کی سوچ کو متاثر کرتی ہیں اور وہ آپ کو اپنی مرضی سے چلانے پر کس طرح سے مجبورکرتی ہیں۔ اس کو فلم کہنا غلط ہوگا کیونکہ یہ حقیقی تجربات پر مبنی گفتگو کا ایک سلسلہ ہے۔ اب جب وہاٹس ایپ کی پرائیویٹ پالیسی سامنے آئی ہے جس میں آپ کے بارے میں تمام معلومات اس ایپ کے مالکان کے پاس ہوگی اور اگر آپ اس پالیسی سے اپنی رضا مندی کا اظہار نفی میں کرتے ہیں توآپ کا وہاٹس ایپ اکاؤنٹ بند ہو جائے گا یعنی آپ کے نشے کا سامان ختم، ظاہر ہے جب آپ کو کسی نشے کی عادت پڑ جائے تو آپ کو وہ شئی ہر حالت میں چاہیے ہوتی ہے، اسی طرح مجبوراً آپ کو وہاٹس اپ کی پالیسی کو ماننا پڑے گا۔


وہاٹس ایپ کی پرائیویسی پالیسی کے مطابق ان کے پاس آپ کی لوکیشن یعنی آپ کہاں ہیں، وہ رہے گی، آپ کیا کر رہے ہیں وہ رہے گی، آپ کس سے کس طرح کی بات کر رہے ہیں وہ رہے گی اور یہاں تک کہ آپ کی مالی اور کاروباری معلومات بھی ان کے پاس رہے گی اور اس معلومات کو وہ سرکاری محکموں کے ساتھ ضرورت پڑنے پر شئیر بھی کر سکتے ہیں۔ اگر دیسی زبان میں کہا جائے تو وہاٹس ایپ آپ کے بیڈ روم، باتھ روم، بینک اور کچن میں داخل ہوچکا ہے اور ہمیں جو وہاٹس ایپ کے نشہ کی عادت ہو گئی ہے اس سے کوئی چھٹکارا بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔

وہاٹس ایپ جیسے کئی اور رابطہ کے ایپ ہیں جن میں ٹیلی گرام اور سگنل بھی ہیں لیکن یہ کیا معلوم کہ کل کو وہ بھی یہ نہیں کریں گے یا وہاٹس ایپ کے مالکان ان کو نہیں خرید لیں گے۔ بازار کا اتنا دباؤ ہے کہ یہ ایپس بھی مستقبل میں یہی سب کچھ کریں گے کیونکہ کسی بھی کمپنی کے لئے اب ڈاٹا ہی سب کچھ ہے اور جب آپ ان ایپس سے جڑیں گے تو آپ کا ڈاٹا بھی حاصل کرنے کے لئے کمپنیاں ان ایپس مالکان پر دباؤ بنائیں گی۔ اس دور میں اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تو یہ خام خیالی کی باتیں ہیں۔ جس نے بھی کہا ہے بالکل صحیح کہا ہے کہ اگر آپ کسی اشیا کے لئے کوئی قیمت ادا نہیں کر رہے یا کوئی اشیا آپ کو مفت مل رہی ہے تو سمجھ لیجیے آپ خود اشیا ہیں، کیونکہ مفت میں کوئی چیز نہیں ملتی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔